Thursday 6 September 2012

Be Rozgari ka Hal Hunar Mandi Mein


بے روزگاری کاحل ہنرمندی میں
طارق ابرارجموں
رابطہ نمبر:9596868150
دورِحاضر میں پوری دنیا سمیت ہمارے ملک اور ریاست جموں وکشمیرکی عوام اور سرکارکوبے روزگاری کے مسئلے نے خاصہ پریشان کررکھاہے۔بیسویں صدی کے شروعاتی دور میں ہرکس و ناکس کوبغیرمشقت نوکری گھربیٹھے ہی مل جایاکرتی تھی ۔اگرکوئی صحت مند اور تندروست نوجوان محکمہ پولیس یافوج کوکہیں مل جاتاتووہیں سے اُس کواپنے ساتھ محکمہ میں شامل کرلیاجاتاتھا ۔اوراگرکوئی پانچویںیااس سے زیادہ پڑھالکھامل جاتاتومحکمہ تعلیم یا دیگر محکماجات میںشامل کرلیاجاتا تھا،گویا کام کرنے والے کم اور کام زیادہ تھا اس لئے آسانی سے نوکری مل جاتی تھی اتنا ہی نہیں صاحبِ ثروت اور زمین دار لو گ زیادہ تر نوکری کرنا معیوب سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ انگریزی حکومت کو اپنے کام کاج کے لئے ہندستانی لوگ ملنا مشکل ہورہاتھا تو انھوں نے اپنے اس مقصد کے حصول کے لئے اپنا نصاب بناکر تعلیم کو عام کر نے اور آرام و آشائش کا لالچ دے کر ملک کے نوجوانوں کو تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دینی پڑی۔ پھرآہستہ آہستہ ملکی و ریاستی نوجوانوں میں تعلیم کے تئیں رجحانات بڑھناشروع ہوئے اوردیکھتے ہی دیکھتے ملک کے طول وعرض سے طلباءکی بھاری تعدادسکولوں سے نکل کرکالجوں تک پہنچنے لگی اورپھر مختلف جامعات سے ڈگریاں حاصل کرنے کے بعدانہیں ملازمت کے مواقع ملنے لگے ۔نوجوانوں میں تعلیم کے تئیں پیداہوئے رجحان میں اضافہ کا نتیجہ یہ نکلاکہ اب ملک میں اعلیٰ تعلیم یافتہ طلباءکی تعدادروز بروزبڑھنے لگی اورپھرعام سی ملازمت یعنی درجہ چہارم کی اسامی کے لیے بھی ایم۔اے،بی۔ایڈ، نیٹ،ایم فل اورپی ایچ ڈی جیسی بھاری بھرکم اسنادیافتہ نوجوانوں کوقطاروں میں کھڑے ہونے کی نوبت آگئی۔کہنے کامطلب صاف ہے کہ جہاںبیسویں صدی کے آغاز میں ہرکسی کوسرکاری ملازم ہونے کا موقع بہ آسانی مل جاتاتھاوہیں آج اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے اوراعلیٰ درجہ کی ڈگریاں رکھنے کے باوجود میری ریاست سمیت ملک کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کوسرکاری نوکریاں ملناجوئے شیر لانے کے مترادف ہو رہا ہے۔پہلے جہاں ریاستی حکمراں کہتے تھے کہ دسویں کرو، بارہویںکروتوسرکاری ملازمت کاموقع مل جائے گاوہیں آج سیاسی لیڈران اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کوعام سی ملازمت کےلئے قطاروں میںکھڑادیکھ کربے روزگاری کے مسئلے پرتشویش جتانے لگے ہےں اس مسئلے کا سامنا کرنے کے لئے یہ بیان بھی ا ن کی طرف سے جاری ہونے لگا کوہے کہ خودروزگاریونٹوں کوقائم کرو۔اس کےلے سرکارمختلف اسکیموں کے تحت خودروزگاریونٹ قائم کرنے کےلئے قرضہ فراہم کرے گی ۔ریاستی سرکارکی جانب سے نوجوانوں کی فلاح وبہبودکےلئے اورخصوصی طورپرخودروزگاریونٹوں کے قیام کےلئے شروع کی گئی اسکیموں کافائدہ راقم کے اندازے کے مطابق بہت کم لوگوں کوپہنچ پا رہاہے ،شاید اس کی وجہ کرپشن اور غبن بھی ہوسکتا ہے ۔میں اس بحث میں نہیں پڑناچاہتاکہ سرکاری اسکیموں کافائدہ نوجوانوں تک کیوں نہیں پہنچ پارہاہے۔ہاں نوجوان دوستوں کو میرا یہ مشور ضرور ہے کہ ”بے روزگاری کاحل ہنری مندی میں مضمرہے “ ۔ میری نظرمیں ہنرکامطلب ہے کسی کام میں مہارتِ تامہ حاصل کرنا ہے ۔ خواہ وہ پینٹنگ بنانا،کمپیوٹرچلانا،لوہارکاکام،فنِ کتابت، کھانے پینے کی چیزیں تیارکرنا، کھلونے بنانے ، درزی کاکام جاننا، اچھاصحافی بننا،اچھاٹائپسٹ ہوناودیگربے شمارایسے کام جنھیں انسان اپنے خداداد صلاحیت کے مطابق بطورپیشہ اپناکر اپناکیئرئیربناسکتاہے اوریہی ہنرذریعہ معاش ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کومقبولیت کے دوام تک پہنچنے کابہترین ذریعہ بھی بن سکتاہے۔ آج ہمارے ملک و ریاست اور سماج میں بے شمارایسے نوجوان ہیں جن کے پاس تعلیمی قابلیت توہے لیکن پھربھی وہ بے روزگارہیں۔ وہ کسی ہنرکوحاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے بلکہ ہُنر کو معیوب سمجھنے لگے ہیں ۔ حالانکہ جس شخص کے پاس اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ کوئی ہنر بھی ہوگاتواُسے کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتایعنی حصولِ تعلیم کے ساتھ ہُنرمندی سونے پر سہاگہ والی بات ہوگی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بابائے قوم گاندھی جی نے ہندوستانی معیشت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے ابتدائی اسکولوں میں ہر بچے کو ایک کرافٹ لینے کا نہ صرف مشورہ دیا بلکہ تعلیمی نصاب کا ایک حصہ بناکر سب کے لئے ضروری کر دیا تھا ،تاکہ ایک بچہ تعلیم یا فتہ ہونے کے ساتھ کسی ہُنر میں ماہر بھی ہو ۔وہ چاہتے تھے کہ ہُنر کے ذریعہ بچوں کو تمام سبجیکٹ جیسے علم معاشیات،علم ریاضی،علم کیمیا،وغیرہ پڑھائے جائیں تاکہ بچہ ان کی باریکیوں کو سمجھ سکے اور وقت ضرورت اپنے والدین کی معاشی طور پر مدد بھی کر سکے ۔ 
کوئی ایک ہنر بھی جب انسان میں آجاتا ہے تواُس میں خود اعتمادی پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے وہ مشکلات سے لڑنے کے قابل بن جاتاہے۔ کچھ لوگ ساری عمرڈگریوں کے حصول کی جدوجہدمیں رہتے ہیں لیکن اُنہیں ڈگری حاصل کرنے کے بعدبھی ہنرنہ ہونے کے سبب خودکشی پرمجبورہوناپڑتاہے۔کم ہمت ، کاہل اورمحنت سے دوربھاگنے والے بزدل کہلاتے ہیں اورجومحنت سے کام لیتے ہیں ہنرکواپنے اندرسمولیتے ہیں اُن میں بردباری ، خوداعتمادی اُن لوگوں کے برعکس زیادہ ہوتی ہے جومحنت سے دوربھاگتے ہیں۔اس لئے نوجوان دوستوں کوسمجھناچاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہرکسی کو الگ الگ صلاحیتوں سے نوازاہے کیونکہ بیشترلوگوں میں یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔یہ ایک قسم کا نفسیاتی ڈرہوتاہے کہ میں کچھ نہیں کرسکتا۔ اگرکوشش کرے تووہ بہت کچھ کرسکتاہے اورکئی مرتبہ توایسادیکھاگیاہے کہ کچھ لوگ کچھ نہ کرنے کاڈرجواُن کے دل میں ہوتاہے اس کونکال کربڑے بڑے غیرمعمولی کارنامے انجا م دے جاتے ہیں، اس لیے کم از کم مسلم نوجوانوں کوچاہئے کہ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ کسی ہنرکواپنائے اورہنرحاصل کرنے میں جوسختیاں آئیں اُن کوسختیاں یازحمت نہ سمجھیں بلکہ ایک امتحان کے طورپرتسلیم کرےں۔کیونکہ کسی بھی امتحان کو پاس کرنے کے لئے صبر کے ساتھ سخت محنت کی ضرورت ہوتی ہے ۔
مجھے اسکول کے زمانے میں میرے استاد کا بیان کردہ ایک واقعہ یاد آگیا وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک لڑکے نے اسکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ بجلی کاکام سیکھنا شروع کردیا،جب وہ ا سکول سے تاخیر سے آتاتھاتوماںسوال کرتی، بیٹا ! تم روزانہ اسکول سے لیٹ کیوں آتے ہو؟۔ماں! میں اسکول سے فارغ ہو کر بجلی کا کام سکھنے چلا جاتا ہوں۔ماں: تم یہ کیا فضول کا کام کر رہے ہو۔ ہم تم کو پڑھنے کے لیے اسکول بھیجتے ہیں اور تم ایک جاہلوں والاکام سیکھ رہے ہو۔ تمھیں صرف اور صرف پڑھائی کرنی ہے کام نہیں۔لیکن وہ نہ مانا پڑھائی کے ساتھ ساتھ کام بھی سیکھتارہا۔ وقت گزرتا گیا اور وہ پڑھ کر فارغ ہوگیا۔اس نے انگلش میںایم اے کیا تھا۔ اس کو ا ±مید تھی کہ کوئی اچھی نوکری مل جائے گی۔وہ روز انہ اپنی ڈگریاں لے کر دفتروںکے چکر کاٹا کرتا تھا۔لیکن اس کو کوئی کام نہیں ملاوہ بہت مایوس ہوا۔اور اس نے آخر کار مجبور ہو کر بجلی کا کام شروع کر دیا،جس سے نہ صرف اپنے گھر والوں کے اخراجات پورا کرنے لگا بلکہ ہزاروں تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے معاش کا ذریعہ بھی بن گیا ، اب لوگ بڑی بڑی ڈگریاںلے کر اس کے یہاں نوکریاں مانگنے آنے لگے۔اور یہ سب کچھ ہنر سیکھنے کی وجہ سے ممکن ہوا۔کیوں کہ اس نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ ہنر بھی حاصل کیاتھا۔اس لیے وہ فاقہ کشی اور در در بھٹکنے سے بچ گیا لہذا ہم کو بھی چاہیے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر ضرور حاصل کریں۔ کیوں کہ آج کل کے دور میں ہنر کے بغیر انسان کا زندگی بسر کرنا نا ممکن ہے۔ہنر چاہے کیسا بھی کیوں نہ ہو انسان کو بھوکا نہیں مرنے دیتا۔ ہنر سے انسان میں ایک خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ ہنر سے انسان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔اور وہ معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کے قابل بنتا ہے۔ جس کی کئی مثالیں ہمیں اسی دنیا میں ملتی ہیں جیسے بھاپ کا ریلوے انجن کی بنیاد رکھنے والے جارج اسٹیفن اور ہوائی جہاز کا تصور دینے والے رائٹ برادرس وغیرہ کے علاوہ ہمارے ملک میں ٹاٹا،متل ،سہارا اور امبانی گروپس کی بھی مثال دی جاسکتی ہے۔میرے کہنے کا ہرگزیہ مطلب نہ سمجھا جائے کہ تعلیم چھوڑ کر صرف ہُنر ہی سیکھی جائے بلکہ میرا مطلب صرف یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اپنی حکومت کا بوجھ بننے کے بجائے حکومت اور ملک کا سہارا بننے کی کوشش کی جائے ۔کیونکہ خاص طور سے ریاست جموں وکشمیرمیں ریاستی سرکاراورنوجوانوں کےلئے بے روزگاری ایک خطرناک مسئلہ کی شکل میں اُبھرکرسامنے آ رہی ہے ۔ اس لئے میری ذاتی رائے ہے کہ سرکارکوچاہئے کہ جواسکیمیں نوجوانوں کی فلاح وبہبوداورانہیں ہنرمندبنانے کےلئے شروع کی گئی ہیں اُنہیں زمینی سطح پر سخت نگرانی میں لاگوکی جائے،تاکہ کرپشن اور غبن کا سایہ بھی اس پر نہ پڑسکے۔ ساتھ ہی نوجوانوں کوبھی سمجھناچاہئے کہ جب تک ہنرمندی کا فروغ ریاست میں نہ ہو گا تب تک بے روزگاری کامسئلہ حل نہیں ہوگا، ہماری ریاست تو فروٹ اور اپنے شاندار آرٹ،فن اور دستکاری کے لئے پوری دنیا میں مشہور ہے ،ہمارے آبا واجداد نے اس دستکاری سے نہ صرف معاش کا مسئلہ حل کیا تھا بلکہ دنیا میں اپنا ایک مقام بھی بنایا تھا پھر ہم اس فنون لطیفہ سے بے گانے کیوں ہورہے ہیں ؟ہم اپنے اس فن کو بروئے کار لاکر اپنی ریاست وملک کی ترقی کا حصہ کیوں نہیں بن پارہے ہیں ؟اس لئے میں اپنے تمام ریاستی دوستوں سے گزارش کر تا ہوں کہ تعلیم کے ساتھ کوئی نہ کوئی ہنر ضرور حاصل کریںتاکہ ملکی وریاستی ترقی میں اپنارول اداکرنے کے ساتھ ساتھ اپنے آباو اجداد کی تخلیقات سے دنیا کو روشناس کرائیں ،تاکہ پھر سے دنیا ہماری ریاست کی قدرتی خوبصورتی، آسودگی اور پُر سکون ماحول کو دیکھ کر جنت کہنے پر مجبور ہوجائے

No comments:

Post a Comment