Thursday 6 September 2012



دُنیامیں گذارے پل پل کاحساب ہوگا


طارق ابرار
ہماری زندگی کاایک ایک پل قیمتی ہے ہم کبھی لمحہ لمحہ کٹتی ہوئی زندگی کی اہمیت پرغورنہیں کرتے ۔انسان بھول گیاہے کہ اس کی تخلیق کس مقصدکےلئے خالقِ کائنات نے کی۔جس وقت اللہ تعالیٰ نے انسان کوتخلیق کرنے کی تیاریاں کیں توفرشتوں سے خالقِ کائنات نے فرمایاکہ میں انسان کواپنی عبادت کےلئے تخلیق کرنے جارہاہوں ، اُس وقت فرشتوں نے سوال کیاتھاکہ اے اللہ آپ کی عبادت کے لیے توہم ہی کافی نہیں ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایاجوتم نہیں جانتے ،وہ میں جانتاہوں۔گویاصاف ہواکہ انسان کواللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کےلئے پیدافرمایا۔
موجودہ دورمیںدُنیاکے حالات بڑی ابترناک صورتحال اختیارکیے ہوئے ہیں کہیں پرچوری کابازارگرم ہے توکہیں زناکاری کا۔کہیں پرقتل وغارت ہورہی ہے توکہیں کھیل تماشے، بے حیائی مشرق سے مغرب اورشمال سے جنوب تک اپنادامن وسیع کرتی ہی چلی جارہی ہے۔آج کے انسان کے سامنے دُنیامیں عیش پرستی ہی زندگی کامقصدبناہواہے یعنی انسان بھول گیاہے کہ اُس کوخالق کائنات نے کس مقصدکے لیے دُنیامیںبھیجا۔آج ہم صبح سے شام اورشام سے صبح تک جوکرتے ہیں اُن کامحاسبہ نہیں کرتے۔اگرہم اپنی زندگی کے پل پل کاجائزہ لیںتواحساس ہوتاہے کہ ہم اپنی زندگیاں فضول میں دُنیاکی محبت وآسائش کےلئے گنوارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے پیارے محبوب کی سیرت پاک تمام انسانیت کےلئے نمونہ راہ ہے لیکن سیرت رسول سے دوری ہی آج انسانوں کے ذہنی انتشاروپریشانیوں کاسبب ہے۔
دُنیاکاکوئی بھی فرداللہ تعالیٰ اوراُس کے نبی پرایمان لاکراللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں عطاکردہ نسخہ کیمیاقرآ ن پاک اورآپ کی سیرت طیبہ کے مطابق زندگی گذارے تواُس کودُنیامیں بھی سرخروئی حاصل ہوگی اورآخرت میں بھی۔انسان آج کل قیامت کی خبروں جوکہ ٹی وی چینلوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً چلائی جاتی ہیں کوسن کرخوفزدہ ہے لیکن اس کے باوجوداُس کے دِل میں خوف خداپیدانہیں ہوتا ، آج بھی کاروبارویسے ہی چل رہاہے جیسے گذشتہ برسوں سے چلتاآرہاہے ۔ بے ایمانی ، جھوٹ ، فریب ، مکر ،بغض عنادکے سہارے دُنیامیں آسائشیں حاصل کرنے کی دوڑلگی ہوئی ہے۔ انسان جسے اشرف المخلوقات کادرجہ حاصل ہے آخریہ کیوں نہیں سمجھتاکہ ایک دِن موت آنی ہے اوریہ دُنیافانی ہے ، کیوں انسان موت کے بعدکی ابدی زندگی کے بارے میںغوروفکرنہیں کرتا۔اصل میں بے ثباتی دُنیاکے کاروبارمیں لگن نے انسانوں میں دُنیاکی محبت پیداکردی ہے جس کے باعث و ہ مرنانہیں چاہتاہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کوبے شمارنعتیں عطاکی ہیں اوریہ وعدہ بھی فرمایاہے کہ جودُنیامیں میری چاہی زندگی گذارے گاوہ عقبیٰ میں من چاہی زندگی پائے گااورجودُنیامیں من چاہی زندگی گذارے گاوہ عقبیٰ میں خداچاہی زندگی گذارے گا۔ اللہ تعالیٰ آخرت میں دُنیامیں گذاری زندگی کے پل پل کاحساب لے گا، اوراس سے عطاکردہ نعمتوں کے بارے سوال کیاجائے گاجس کے متعلق قرآن کریم میں ارشادہے ۔
ثمُّ َ لَتُسئلُنَّ یوَ مَئذِِ ِِِعَنِ النّعیمِ۔(التکاثر۔۸)
ترجمہ: پھرضروراس روزتم سے اِن نعمتوں کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی۔
لہذاانسان کے لیے بہتریہی ہے کہ وہ احکام خداوندی پرعمل پیراہونے کےلئے حضورپاک کی سیرت طیبہ اورسنتوں کے مطابق زندگی گذارے ۔ ہرانسان کو اپنے روزوشب کاجائزہ لیناچاہیئے اورغورکرناچاہیئے کہ اُس نے ابدی زندگی کےلئے کیاسامان کیاہے۔اللہ تعالیٰ کاارشادہے۔
وَلتنظُرنَفسُ‘ ماَّ قَدَّ مَت لِغَدِِ۔
ترجمہ: ”اورہرشخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیاسامان کیاہے“۔
اس آیت پر ہرکسی کوغوروفکرکرناچاہیئے ،ہرکوئی بہترمکان بناناچاہتاہے ، اچھی بیوی کی خواہش کرتاہے ۔ ایساکرنے میں کوئی حرج بھی نہیں۔غورطلب بات یہ ہے کہ اس دُنیافانی کوآرام سے گذارنے کےلئے اچھے گھراوراچھی بیوی کی جستجوتوہم کررہے ہیں لیکن جوابدی زندگی موت کے بعدشروع ہوگی اُس کےلئے بہترگھرکی تعمیرکےلئے کیاسامان جمع کیا، وہ سامان ہمارے نیک اعمال ہوتے ہیں ۔انسان کوچاہیئے کہ وہ آخرت کی فکرکرے اورنیک اعمال کمائے۔
ہم اپنے پختہ اورعمدہ گھروں میں سرد ی سے بچنے کےلئے دروازے ،کھڑکیاںاورپردے لگاتے ہیں۔ گرم کمبل اورقسم قسم کے بچھونے خریدتے ہیں۔ سردی سے بچنے کےلئے بجلی سے چلنے والے Heater اورگرمی سے بچاﺅکےلئےA.C اورگیس سے چلنے والی بخاریاں استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ گرمی سے بچنے کےلئے پنکھے، کولروغیرہ کاکثرت سے ستعمال کرتے ہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ جہنم کے دہکتے شعلوں سے بچنے کےلئے ہم نے کیاتیاری کی ہے؟انسان کی فلاح حضرت محمد کی سیرت طیبہ اوراُن کے بتائے اصولوں پرعمل پیراہونے میں ہی مضمرہے۔
ہم جتنابھی چہروں کوچمکائیں اگرہمارادِل صاف نہیں،اورہماراقلب اللہ تعالیٰ کی عبادت کےلئے نہیں جھکتاتوسب کچھ بیکارہے۔بقول شاعر
منہ دیکھ لیاآئینے میں پرداغ نہ دیکھے سینے میں 
دل ایسالگایاجینے میں مرنے کومسلمان بھول گئے 
غوروفکرکرنے کی بات ہے کہ اگرہم واقعی نبی آخرالزماں حضرت محمد کوماننے والے ہیں توہمیں اپنے نفس پرقابوپاناچاہیئے اوردوسروں کواپنے اخلاق کاگرویدہ بناناچاہیئے ۔ہمیں دُنیاکے بجائے آخرت کوترجیح دینی چاہیئے ۔


جدیددورکی گائیکی کانامورفنکار: ابرارالحق
طارق ابرارجموں
رابطہ:9596868150
 اللہ تعالیٰ نے اِنسان کواشرف المخلوقات کادرجہ عطاکیا اورکائنات کی تمام چیزیں انسان کےلئے وقف کردیں۔ انسان کوبے شمارانمول نعمتوں سے سرفرازکیا جن کےلئے اللہ تعالیٰ کاشُکراداکرناہرانسان پرفرض عائدہے۔اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطاکردہ ذہن جیسی نایاب نعمت سے ہی جس طرح شاعرِ مشرق علامہ اقبال اورنامورترقی پسندشاعرفیض احمدفیض نے اُردوادب کواظہارخیال کاذریعہ بناکردُنیامیں امن، محبت ، بھائی چارہ اوررواداری کاپیغام عام کیااور سماجی بُرائیوں کاقلع قمع کرنے کےلئے آوازبلندکی ،اُسی طرح اُردوادب کے دوبڑے شاعروںکے شہرسیالکوٹ سے ہی تعلق رکھنے والاایک نوجوان فیض واقبال کے مشن کوآگے بڑھارہاہے۔ علامہ اقبال اورفیض احمدفیض اُردوادب کے وہ ستارے ہیں جن کے کلام سے اُردوادب کاخزانہ مزیدوسیع ہواجس کے باعث آج دُنیامیں اُردوکوایک زبان ہونے کے ساتھ ایک تہذیب کے طورپردیکھاجاتاہے۔ زبان چاہے اُردوہو، ہندی ہو، پنجابی ہویاسندھی کااستعمال ادب کے علاوہ موسیقی کےلئے بھی کیاجاتارہاہے ، کیاجاتاہے اورکیاجاتارہے گا۔شہرِسیالکوٹ کے اِن دوناموراُردوشعراءکے دِلوں میں قوم کی خدمت کاجوجذبہ پایاجاتاتھا وہ اُن کے کلام سے نمایاں طورپرسب پرعیاں ہے۔فیض اوراقبال کی تحریروں سے برصغیرکے عوام کونئی راہ ملی اور آپسی بھائی چارہ ، اورمحبت اورامن کاپیغام دوردورتک پہنچا۔شہرسیالکوٹ کے اِن دوادبی ستاروں (فیض واقبال) نے دنیامیں امن ومحبت کاپیغام عام کرنے کاکارنامہ انجام دیا، اس ہی مشن کوتقویب بخشنے کےلئے سیالکوٹ سے ہی تعلق رکھنے والاجواں سال گلوکارابرارالحق اللہ تعالیٰ کی طرف سے نوازی گئی خدادادصلاحیتوں کوبروئے کارلاتے ہوئے فیض واقبال کی ڈگرپرگامزن ہے۔ فرق صرف اِتناہے کہ ابرار الحق ادب کے بجائے گلوکاری کے ذریعے امن ، پیارمحبت، حب الوطنی کے جذبہ اوررواداری کاپیغا م عام کرکے عوام میں احساس پیداکررہاہے جس سے عوام متاثربھی ہوئی ہے۔
پاکستان کایہ معروف گُلوکارنہ صرف موسیقی کے ذریعے امن اورحُب الوطنی کاجذبہ عوا م کے دِلوں میں پیداکررہاہے بلکہ ملک میںسماجی خدمات انجام دینی والی شخصیات میں بھی اہم ومنفردپہچان رکھتاہے اس کے علاوہ پاکستان میں جمہوری نظام کی بحالی کےلئے بھی دل وجان سے کوشاں ہے۔ابرارالحق نے فنِ گلوکاری کواپنانے کے بعدپہلے ہی گانے کے ذریعے راتوں رات دُنیابھرمیں شہرت کی بلندیو ں کوچھولیاجس کے بعداس گلوکارنے پیچھے مُڑکرنہیں دیکھا،اوراپنے مشن اورفن کونکھارنے میں سرگرم رہے جس کے نتیجے میں اس پاکستانی گلوکارکے مداحوں کی اچھی خاصی تعدادپاکستان کے علاوہ ایشیائی ممالک میں پائی جاتی ہے ۔ جدیدزمانے سے ہم آہنگ ابرارکی گائیگی اورموسیقی نے وہ زورپکڑاکہ شہرت کی ساری منزلیں چندہی برسوں میں طے کر لیں ۔
موسیقی کے اِس درخشندہ ستارے کاجنم 21 جولائی 1968ءکونارووال (سیالکوٹ) مغربی پنجاب پاکستان میں ہوا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گجرات اورراولپنڈی سے حاصل کرنے کے بعدسرسیدکالج راولپنڈی سے گریجوکیشن کی اورقائداعظم یونیورسٹی اسلام آبادسے سوشل سائنسزمیں ماسٹرڈگری حاصل کی۔ابرارنے اپنے کیرئیرکاآغازاتھیسن کالج سے بطورمدرس کیامگرابرار گلوکاربنناچاہتے تھے لیکن اس کے گھروالے ابرارکوگلوکاری کی طرف جانے کےلئے اجازت نہیں دے رہے تھے لیکن آخرکارابرارنے شش وپنج سے نکلنے کافیصلہ کرتے ہوئے گلوکاری کاپیشہ اپنانے کاحتمی فیصلہ کیا۔
ابرارالحق بنیادی طورپراپنی مادری زبان پنجابی میں گاتے ہیں تاہم کچھ گانے اُردومیں اورکچھ پنجابی اورانگریزی کی آمیزش بھی ہیں۔ ابرار الحق کی آوازوموسیقی میں جومٹھاس پائی جاتی ہے وہ سُننے والوں کے دِلوں میں اُترتی ہی چلی جاتی ہے۔اب تک خدادادصلاحیتوں کامظاہرہ کرتے ہوئے ابرارالحق نے بھنگڑا،پاپ اورفوک یعنی موسیقی کے تینوں میدانوں میں اپنی صلاحیت کے جوہردکھائے ہیں۔
ابرارالحق نے 1995ءمیں اپنی پہلی میوزک البم ”Billo De Ghar“بلودے گھر“نام سے لانچ کی ۔اس البم کاٹائٹل سانگ ”بلودے گھر“ سوپرڈوپرہٹ گاناثابت ہوا۔پھرکیاتھاراتوں رات ابرارالحق کی شہرت دُوردُورتک پھیل گئی جس کااندازہ ابرارکوہرگزنہ تھایعنی پہلے ہی البم کے ریلیزہوتے ہی ابرابرکی قسمت کے ستارے بلندیوںپرپہنچ گئے۔ابرارکی اس پہلی میوزک البم ”BDG“ کی ایک کروڑساٹھ لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں جوکہ اُس وقت ایک ریکارڈقائم ہواکیونکہ پاکستانی فلمی موسیقی نوے کی دہائی میں ماندپڑگئی تھی اورلوگوں کواچھے فن کارکی آوازسُننے کونہیں مل رہی تھی ۔ پہلی ہی البم کے باعث وسیع پیمانے پرابرارکوجو شہرت اورعزت کوملی اُس نے ابرارکے حوصلوں کوساتویں آسمان پرپہنچادیا۔ ابرارنے اپنی دوسری البم دوسال بعدیعنی 1997ءمیں ”Majajni“ مجاجنی ریلیزکی جس نے پھرسے ابرارکی دھوم گلی گلی مچائی ۔ عوام سے مِل رہی دادوتحسین کے پیش نظرابرارنے اپنے پراجیکٹوں ومستقبل کے منصوبوں پرکام شدومدسے جاری رکھا۔سال 1997ءمیں ابرارکاایک اورالبم ”Baj Ja Cycle Te“ ریلیزہواجس نے ایک مرتبہ پھرابرارکوموسیقی کی دُنیامیںدوام بخشا۔اس البم کی 8 کروڑکاپیاں فروخت ہوئیں ۔2000 ءمیں ان کی ایک البم ”Mein Gaddi Aap Chalawan Ga“، ”میں گڈی آپ چلاواں گا“ منظرعا م پرآئی جس کولوگوں نے کافی سراہا۔ابرارکی چوتھی البم ”اساں جاناں مالومال“جس نے پھرسے میوزک انڈسٹری میں تہلکامچایااورابرارکے نام کوچارچاندلگائے اوراس البم کی 12 کروڑکاپیاں فروخت ہوئیں۔اس کے علاوہ ابرارکی Nacha mein Uday Naal Naal ، البم نے بھی کافی مقبولیت حاصل کی۔
ابرار نے چندحمداورنعتو ں کوبھی اپنی آوازبخشی ہے ۔ معروف زمانہ صوفیانہ کلام ”تیرے رنگ رنگ، تیرے رنگ رنگ“ توہرشام وصبح FM ریڈیوچینلزاورپاکستانی ٹیلی ویژن چینلوں پربرسوں سے بجتا چلاآرہاہے ۔ کل ملاکردیکھاجائے توابرارنے ابھی تک جوالبمزریلیزکی ہیں اورمنظرعام پرلائی ہیںاُن میں 1۔بلودے گھر(1995)، مجاجنی (1997) ، بے جاسائیکل تے (1999)، اساں جاناں مالومال (فروری 5، 2002) ، نچاں میں اودے نال ‘جون 1، 2004 )، نعرہ ساڈاعِشق اے(مار چ 2007)، دوکمپلیشن اورسٹوڈیوالبمزجن میں ’میں گڈی آپ چلاواں گا(2000) اور”سراُٹھاکے ‘2010 وغیرہ قابل ذکرہیں۔
ابرارکی درج بالاالبمزکے علاوہ جودیگرگانے شہرت رکھتے ہیں اُن میں ”جگا“ ، گرداس مان اورسکھوندرشنداکے ساتھ مشترکہ کلیبوریشن ، پردیسی ہویووے، ”ماں،‘۔ اورکچھ ماہ قبل پاکستان کے حالات کی اتھل پتھل کے پیش نظربنائی گئی البم ”کی کراندے او“ جوادشاہ زمان کے تعاون سے بنائی گئی ہے ، نعرہ ساڈاعشق اے، کُڑیاں لاہوردیاں، ایویں ظلم نہ کر( دہشت گردی کے خلاف )، پریتومیرے نال ویاکرلے، پرمین، پتلوجئی،جٹ، اساں تیری گل کرنی وغیرہ قابل ذکرہیں۔
ابرارالحق نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاکردہ خدادادصلاحیتیوں کامظاہرہ کرتے ہوئے مختلف تنظیموں کی طرف سے متعدد اعزازت بھی حاصل کئے ہیں ۔ابرارالحق کوجن اعزازات سے حوصلہ افزائی ملی اُن میں سال 2002 میں بہترین لوک گلوکارایوارڈ، 2001 میں بہترین پاپ سنگرایوارڈ، فرٹوسن میوزک ویوورزایوارڈ، سٹی زن ایکس لینسی ایوارڈاورمسلسل دوسال تک پاکستان کاسب سے مشہورگلوکارایوارڈکااعزاز، 2005 میں تمغہ امتیاز، اسلامی کانفرنس کاپہلاہیومنٹیرین ایمبسڈرایوارڈوغیرہ قابل ذکرہیں۔
ابرارالحق ہندپاک تعلقات میں بہتری کے خواہاں ہیں ۔انہیں ہندوستان کے لوگوں سے اورخاص طورسے جموں کشمیرکے لوگوں سے کافی پیارہے۔ ابرارنے اپنی پہلی میوزک البم ”Billo De Ghar“ بھی دہلی میں ایک پریس کانفرنس کاانعقادکرکے لانچ کی تھی ۔ BDG کی لانچنگ کے موقعہ پرانہوں نے میڈیانمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہاتھاکہ ہندوستان موسیقی کی بہت بڑی مارکیٹ ہے اُن کاکہناتھاکہ ”ہندوستان اورپاکستان کے لوگوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ دونوں ملکوں کی تہذیب مشترکہ ہے ، تاریخ مشترکہ ہے“۔ اوراُمیدکااظہارکیاتھاکہ Billo De Ghar کوہندوستانی لوگ پسند کریں گے ۔ ابرارکی اس البم کوہندوستانیوں نے بے پناہ محبت دی اورقبول کیا۔ابرارنے اپنی موسیقی کوعام کرنے کےلئے ہندوستان کے مختلف شہروں مثلاً دہلی، اجمیرشریف، چندی گڑھ اورممبئی کابھی دورہ کیا۔ہندوستانی فلم سازوں نے بھی ابرارکواپنی فلموں کوعوام میں مقبول بنانے کےلئے آوازکاجادوچلانے کےلئے دعوت دی ، ابرارنے سنی دیول کی فلم ’زدی ‘ کےلئے ”دل لے گئی اوئے کموکی کدھر“گاناریکارڈکرایاجسے دونوں ممالک کے لوگوں نے کافی پسندکیا ۔اس کے علاوہ فلم نگری ممبئی کے کنگ خان ”شاہ رُخ خان “کی متعدد فلموں کےلئے بھی ابرارگلوکاری کرچکے ہیں۔ابرار ہندوستان کے علاوہ دیگرکئی ممالک میں میوزک کنسرٹ بھی کرچکے ہیں۔
ابرارالحق نے ایک انٹرویوکے دوران جذبہ ¿ حُب الوطنی کااظہاراس طرح کیاہے کہ” میں اپنے ملک کے خلاف نہیں سُن سکتا“۔انہوں نے کہاکہ ”مجھے صرف اگریہ خوشخبری دی جائے کہ پاکستان کامستقبل محفوظ ہے تومجھے اطمینان ہوجاتاہے “پاکستان بھرمیں ابرارالحق کونہ صرف ایک گلوکار، موسیقاراورگیت کارکے طورپرجاناجاتاہے بلکہ ایک فلاحی اورسیاسی شخصیت بھی تسلیم کیاجاتاہے۔
ابرارالحق کے اندرجوپاکستانی عوام کی مشکلات کودورکرنے اورقوم کودُنیاکی بہترین قوم بنانے کاجو جذبہ ہے وہ بہت کم لوگوں میں پایاجاتاہے ۔ملک کے بگڑے ہو ئے حالات اورعوام کی حالت زارکومدنظررکھتے ہوئے ابرار نے پاکستان میں عوامی فلاح کے جذبے کوفروغ دینے اورعوام کی خدمت کرنے کےلئے ایک فلاحی ادارہ ”سہارافارلائف ٹرسٹ“ قائم کیاہے ۔ فلاحی مشن کے تحت ہی نامورگلوکارنے نارووال میں صغٰری شفیع میڈیکل کمپلیکس بھی قائم کیاہے جہاں پرلوگوں کومفت علاج ومعالجہ کی سہولیت دی جارہی ہے۔ ابرارکے فلاحی جذبہ سے متاثرہوکرعوام بھی ”سہارافارلائف ٹرسٹ “ کوبڑھ چڑھ کرعطیات دیتے ہے ۔ ”سہارافارلائف ٹرسٹ “ کے تحت ابرار نے پاکستانی عوام کی وہ خدمت کی ہے جوبڑے بڑے سیاستدان نہیں کرپائے ہیں۔
پاکستانی غریب عوام کاعکس ابرارکی اس نظم میں صاف طوردکھائی دیتاہے اورابرارمظلوم وغریب بچوںکے ساتھ اظہارہمدردی اس طرح سے کرتے ہیں اوردوسروں کوبھی فلاح وبہبودکی طرف راغب کرنے کےلئے نظم میں اِن الفاظ کااستعمال کرتے ہیں جوبعدمیں انہوں نے ایک گانے کے طورپربھی دُنیاکے سامنے پیش کیا۔
سراُٹھاکرشہرمیں چلنے کاموسم آگیا
آﺅکے موسم بدل دینے کاموسم آگیا
آﺅذرا!
دوستوآﺅذرا!
دھورہاتھاکل میں جسے اپنے پھٹے کُرتے کے ساتھ 
 دھورہاتھاکل میں جسے اپنے پھٹے کُرتے کے ساتھ 
آج وہ بچہ اُسی گاڑی کے نیچے آگیا
سوچوذرا!
دوستوآﺅذرا!
آﺅجھاڑوچھین لیں اِن ننھے ہاتھوں سے کہ اب 
ہاتھ میں اِن کے قلم دینے کاموسم آگیا
کب تلک کاغذچنیں گے کوچوں کے گندے ڈھیرسے
ہاتھ میں اِن کے قلم دینے کاموسم آگیا
کب تلک کاغذچنیں گے کوچوں کے گندے ڈھیرسے
کونپلوں کے پھول میں پھلنے کاموسم آگیا
آﺅذرا! 
سوچوذرا!
غیرمسلم ہوکہ مسلم سب کااپناگھرہے یہ 
سب نے جینابھی ہے مرنابھی ہے اس آغوش میں 
وہ جونفرت ڈالتے ہیں اِن دِلوں میں جان لیں 
وہ جونفرت ڈالتے ہیں اِن دِلوں میں جان لیں 
اُن سروں کی فصل جھکنے کاموسم آگیا
آﺅذرا! 
دوستوآﺅذرا!
ماں ہے، بیٹی ہے ، بہوہے ، بہن ہے، بیوی ہے یہ 
آ ج یہ خوش رنگ رشتے کیوں پریشان ہوگئے 
جس سے اِن رشتوں میں قائم ہومحبت کی فضا 
جس سے اِن رشتوں میں قائم ہومحبت کی فضا 
آج سے وہ پیاربرسانے کاموسم آگیا
آﺅذرا!
دوستوآﺅذرا!
کیاہمارافرض ہے خالی تماشادیکھنا
کیاہمیں ہروقت کرناہے گلہ سرکارسے 
آﺅمِل کربانٹ لیں جرم ِ ظریفی کی سزا
اورلیں بدلے میں ہم لاکھوں کروڑوں کی دُعا
آﺅذرا!
دوستوسوچوذرا!
سراُٹھاکرشہرمیں چلنے کاموسم آگیا
آﺅکے موسم بدل دینے کاموسم آگیا
آﺅذرا!
دوستوسوچوذرا!
ابرارایک کاغذاُٹھانے والے بچے کوقلم تھماکرترقی کی راہوں پرگامزن کرنے کے خواہاں ہیں،وہ اُن عناصرکے خلاف ہیںجوسماج میں نفرت پھیلاتے ہیں ۔ابرارچاہتے ہیں کہ ملک کے لوگوں میں پیارپرورش پائے اورقائم رہے ، چاہتے ہیں کہ ہرشہری کوتحفظ ملے اوروہ بھی سراُٹھاکرجی سکے۔
پاکستان میں گلوکاری اورسماجی فلاح وبہبودکے علاوہ ابرار ایک سیاسی لیڈرکی حیثیت سے بھی عوامی خدمت کافریضہ انجام دے رہے ہیں۔انہوں نے گذشتہ برس 25دسمبر2011ءکوپاکستان کے نامورکرکٹروقدآور سیاسی شخصیت عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف پارٹی کادامن تھام کربطورسیاست دان پاکستانی عوام کی خدمت کابیڑہ اُٹھایا۔تحریک انصاف میں شمولیت سے قبل”یوتھ پارلیمنٹ “نامی غیرسرکاری تنظیم کے تحت وہ نوجوانوں کی قیادت کررہے تھے ۔تحریک انصاف میں شمولیت کے بعدابرارالحق کراچی میں ”پی ٹی آئی “ جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے اس طرح سے پاکستانی عوام اورنوجوانوںکوملک کے حالات بدلنے کی نویدسُناتے ہیں اوردِلاسہ دیتے ہیں، ابرارکایقین کامل ہے کہ پاکستان کااقتدارایک دِن مظلوموں وعام آدمی کے ہاتھ میںآئے گا، انقلاب ضرورآئے۔پاکستان تحریک انصاف کے جلسہ کی تقریرکے چندپہلو،
اسلام علیکم!
”میں سب سے پہلے مبارکبادپیش کرناچاہتاہوں کہ وہ انقلاب جوہماری آنکھوں میں بچپن سے ٹمٹمارہاتھاشکرہے الحمدللہ ، لگتاہے اُس کے آنے کاوقت آن پہنچاہے، مجھے لگتاہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں دوتہائی 2/3rd اکثریت ملنے والی ہے۔انشاءاللہ اس کے نتیجے میں قائم ہونےوالی حکومت ، انصاف کی حکومت ہوگی، اصل پاکستانیوں کی حکومت ہوگی، وہ وی آئی پیزکی حکومت نہیںہوگی، وہ عوام کی حکومت ہوگی ۔وہ نوجوان کی حکومت ہوگی، آج سے چندمہینے پہلے میں نے ایک ریلی نکالی تھی ،میں سمجھتاہوں کہ 30 اکتوبرکے بعدحالات بدل گئے ہیں۔ اُس ریلی کانام تھا”پاکستان بچاﺅ“ریلی۔میرے پاس ریلی میںدونوجوان آئے ، وہ کہنے لگے ابراربھائی !ہم خودکشی کرناچاہتے ہیں ، میں نے کہاکیوں؟وہ کہنے لگے کہ اس لیے کہ حکومت کی نظرہم پرپڑے گی ، وہ نوجوانوں کاخیال رکھے گی،روزگارکوئی نہیں ہے ہمارے پاس۔ اسی بہانے شایدہماری دوبہنوں کی شادی بھی ہوجائے ۔حکومت میرے والدین کوپیسے دے دے گی ، میں نے کہاکہ تم پاگل ہو۔ خودکشی کریں تمہارے دُشمن۔ کبھی سوتیلی ماﺅں سے دودھ کی امیدنہ رکھنا،سوتیلی مائیں کبھی نازونخرے نہیں اُٹھایاکرتیں، تمہیں کچھ نہیں ملنے والا۔ اپناحق لیناپڑے گااوردِلاسہ دیاکہ آپ کی مشکل کومیں حل کروں گا۔اس کے بعداللہ کاشکر! تحریک انصاف اس طرح سے سامنے آئی کہ ہمیں ایک اُمیدکی کرن نظرآئی۔آج انشاءاللہ العزیز۔تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے بہت ہی جلد میں سمجھتاہوں کہ ایک انقلاب آئے گا۔وہ پاکستان جس کانام آپ کے اور میرے خون کے ہرقطرے میں لکھاہے۔آج دیکھیں جاکربلوچستان میں دیواروں پراُس نام کے ساتھ کیاجملے لکھے ہیںکہ1971 کی طرح یہ حصہ بھی کٹ جائے گاگویااب میرے دوسرے بازوپہ وہ شمشیرہے جواس سے پہلے بھی میری شہہ رگ کالہوچاٹ چُکی ۔اس سے پہلے بھی میرانصب بدن کاٹ چکی۔ اے میرے دیس کے پیارے، سارے لوگو، ہم نے خود کوبیچنانہیں ہے۔اب ایک ہی موقعہ ہے ہمارے پاس۔ پتہ نہیں پھر آئے گایانہیں۔ اب ہم نے تحریک انصاف کوسامنے لیکرآناہے۔ایک نظم سُناکرجاﺅں گا، چاہوں گاکہ آپ میراساتھ دیں ۔
سرجلائیں گے روشنی ہوگی 
اُس اُجالے میں فیصلے ہوں گے
روشنائی بھی خون کی ہوگی 
اوروہ فاقہ کش قلم 
جس میںجتنی چیخوں کی داستانیں 
انہیں لکھنے کی آرزوہوگی
نہ ہی لمحہ قرارکاہوگا
نہ ہی رستہ فرارکاہوگا
وہ عدالت غریب کی ہوگی
جان اٹکی یزیدکی ہوگی
جس نے بیچی ہے قلم کی طاقت
جس نے اپناضمیربیچاہے 
جو اب دُکانیں سجھائے بیٹھے ہیں 
سچ سے دامن چھڑائے بیٹھے ہیں
جس نے بیچاعذاب بیچاہے 
مفسلوں کوسراب بیچاہے
دین کوبے حساب بیچاہے
اورکچھ نے روٹی کاخواب بیچاہے 
اورکیاکہیں ہم کہ قوم کواس نے 
کس طرح بارباربیچاہے
فیض واقبال کاپڑوسی ہوں
اک تڑپ میرے خون میں بھی ہے 
آنکھ میں سلسلہ ہے خوابوں کا
اِک مہک میرے چارسوبھی ہے 
جھونپڑی کے نصیب بدلیں گے 
پھرکہیں انقلاب آئے گا، انقلاب آئے گا۔
انقلاب ، انقلاب،انقلاب، انقلاب
لُٹے ہوئے، پسے ہوﺅں کاوقت ِ انتقام ہے 
اب وہ قاتلوں کاوقتِ اختتام ہے
عام آدمی کے ہاتھوں اقتدارآئے گا
بے قصورشہریوں کاخون رنگ لائے گا
دیس کی رگوں میں رقص ِزہربے شمارہے 
اُٹھوبھی دوستوکے تم کوکس کاانتظارہے 
انقلاب، انقلاب، انقلاب، انقلاب 
آخرمیں اِتناضرورکہوں گاکہ سیالکوٹ کی مٹی میں محبت کی خوشبوہے، شاعرِمشرق علامہ اقبال اورفیض احمدفیض کے شہرکاایک نوجوان گلوکارابرارالحق اپنے بزرگوں کے نقش وقدم پرچل کربیک وقت نہ صرف گلوکاری کے ذریعے محبت اورامن کاپیغام عام کررہاہے بلکہ فلاحی ، سماجی اورسیاسی لیڈرکے طورپرعوامی خدمت کافریضہ انجام دے کرسیالکوٹی ہونے کافرض اداکررہاہے۔(راقم ابرارالحق کے کروڑوں مداحوں میں سے ایک ہے اورجموں سے تعلق رکھتاہے) 


Talkh Yadein Jo Aaj bhi Dilon Mein Taza Hein!


تلخ یادیں جوآج بھی دِلوں میں تازہ ہیں

طارق ابرار

رابطہ:9596868150

Email:tariqh50@gmail.com



تقسیم برصغیرجِسے تقسیم ہندبھی کہاجاتاہے سے متعلق اہلِ قلم نے بہت کچھ تحریرہے اوریہ سلسلہ تاہنوزجاری ہے۔ اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ سانحہ تقسیم نے نہ صِرف لاکھوں لوگوں کے دِلوں کومجروح کیابلکہ خون کے رشتوں کوایک دوسرے سے ج ±دابھی کردیا۔1947ءمیں جب ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کررہاتھاا ±سی اثنامیںچندافرادکی ناعاقبت اندیشی اورغلط پالیسیوں کی وجہ سے انسان‘ انسان کابیری ہوگیاجس کے نتیجے میں لاکھوں انسانوں کی جانیں تلف ہوئیں۔مذہب کی بناءپرقتل عام ہوا،سانحہ تقسیم اسقدرالمناک تھاکہ اس کے گہرے نقوش ابھی بھی انسانی ذہنوں سے مٹ نہیں پائے ہیں۔1947ءکے سانحہ تقسیم ملک کے دردوآلام کااحساس تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی سے بخوبی ہوجاتاہے۔ بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں دوقومی نظریہ کے تحت پاکستان وجودمیں آیا، لاکھوں ہندوستانی نقل مکانی کرکے پاکستان چلے گئے اوراتنی ہی تعدادمیں لوگ پاکستان سے ہندوستان منتقل ہوئے۔اس سانحہ سے جموں وکشمیر کے لوگوں کو بھی شدیدنقصان جھیلناپڑا۔یہ کہنابھی بے جانہ ہوگاکہ بے شک سانحہ کانام تقسیم ہِندسے منسوب کیاگیامگراصل میں ہندوستان کی دیگرریاستوں کے مقابلے سب سے زیادہ نقصان ریاست جموں وکشمیر کے لوگوں کوہی برداشت کرناپڑا۔1947ءمیں چند افرادکی تنگ نظری سے ملک کے ٹکڑے توہوئے ہی مگرریاست جموں وکشمیرسے ہجرت کرکے پاکستان کے مختلف شہروں میں آبادافرادیاپاکستان سے نقل مکانی کرکے ریاست جموں وکشمیریاہندوستان کی کسی دوسری ریاست میں مقیم افرادکے دِلوں پرجوزخم لگے ہیں ا ±ن کادردوہ آج بھی محسوس کررہے ہیں۔ریاست جموں وکشمیر کے صوبہ جموں سے پاکستان ہجرت کرنے والے مسلمان خاندانوں جن میں بیشترگوجربکروال طبقہ سے تعلق رکھنے والے خاندان بھی شامل تھے نے پاکستان کے شہرسیالکوٹ کواپناٹھکانہ بنایا، کیونکہ فرقہ وارانہ فسادات کے پرآشوب حالات میں جب جانوں کے لالے پڑے ہوئے تھے ‘ اس دوران جموں سے نقل مکانی کرنے والوں نے پاکستان کے قریبی شہرکی سرحدسچیت گڑھ۔سیالکوٹ کی طرف ہی ر ±خ کیا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ جموں سے سب سے نزدیک پاکستانی شہرسیالکوٹ ہی ہے جس کی دوری جموں سے محض 35 کلومیٹرہے۔جانیں بچاتے بچاتے لوگوں نے ایک یادوگھنٹوںکے دوران ہی اس مسافت کوطے کرلیااوروہاں پراپنے آپ کومحفوظ پایا۔ 
چندروزقبل(یکم اپریل،2012)کو راقم الحروف کاچھوٹابھائی محمدعارف ایک مہینہ پاکستان کے شہرسیالکوٹ میں گذارکراپنے عزیزواقارب سے ملاقات کرکے جب واپس لوٹاتوا ±س نے اپنے دورہ پاکستان کے مختلف پہلوﺅں سے مجھے روشناس کرایا، اوروہاں پر1947ءمیں ہجرت کرکے گئے افرادکی آبائی وطن سے محبت وعقیدت سے متعلق اپنے تاثرات بیان کیے۔
عارف مجھے شہرسیالکوٹ کی گلیوں ،نظاروں ، دیہات اورمشہورمقامات سے متعلق جانکاری د ے رہاتھااورمیں ذہنی طورپرا ±ن نظاروں،گلیوں، مشہورمقامات کی سیرکررہاتھا۔عارف کاکہناتھاکہ سیالکوٹ میں جموں سے 1947ءمیں ہجرت کرکے گئے گھرانوں کی اچھی خاصی تعدادآبادہے اورجوچاہ ومحبت ا ±ن کے دِلوں میں اپنے آبائی وطن کے تئیں میں نے دیکھی ا ±س کاجواب نہیں۔
میں نے عارف سے پوچھاکہ آپ کوکس چیزنے وہاں پرسب سے زیادہ متاثرکیا؟ا ±س نے جواب میں کہاکہ سیالکوٹیوں کی مہمان نوازی اورخاطرتواضع اورخاص طورسے ا ±ن لوگوں نے جوتقسیم ملک کے وقت ہجرت کرکے اپنے پیچھے آباواجداداورماضی کی شیریں وتلخ یادوں کوچھوڑکرگئے ہیں۔ ا ±ن لوگوں کی اپنے آبائی وطن سے حددرجہ عقیدت ومحبت کوبیان کرپانامشکل ہے۔وہ جب یہ خبرسنتے ہی کہ کوئی نوجوان ا ±ن کے آبائی وطن ریاست، ریاست جموں وکشمیرسے یہاں آیاہے توفوراًمیرے چچاجان کے ہاں جہاںمیراقیام تھا،دوڑے چلے آتے اوراپنے رشتہ داروں وعزیزوںکے احوال کے بارے آگاہی حاصل کرنے کی خاطرمجھ پرسوالوں کی بوچھاڑکردیتے۔عارف نے اپنے دورہ سیالکوٹ کی چندجھلکیوں کے بعد م ±جھ سے کہاہے کہ میں نے بھی بہت سی ایسی کتابوں کامطالعہ کیاہے جن میں 1947ئ کے ہولناک ودردناک واقعات کادردوکرب ہے اورایسے واقعات نے میرے دل کوبھی کئی مرتبہ چھلنی کیا،لیکن جن لوگوں نے تقسیم وطن کے وقت ہجرت کی اوراب سانحہ تقسیم کے65 سال گذرنے کے باوجودچندلوگ جوابھی باحیات ہیں اورزندگی کے آخری پڑاﺅمیں ہیں سے اپنے وطن سے ج ±داہونے کادرد، اپنے علاقہ ، اپنی بستی ، اپنے گاﺅں، اپنے شہر، کی ایک ایک چیزکودیکھنے کی غیرمعمولی چاہت وتمناکااظہاروبیان ا ±ن ہی کی زبان سے د ±کھ ودردبھرے جذبات س ±ننامیرے لیے مشکل توتھاہی لیکن اس سے بھی زیادہ مجھے د ±کھ اس بات کاہواکہ ریاست جموں وکشمیربالعموم اورصوبہ جموں سے بالخصوص تعلق رکھنے والے ان معصوم بھولے بھالے لوگوں کودونوں ممالک کی حکومتیں انہیں ویزے نہ دے کراپنے عزیزواقارب واحباب سے ملاقات اوراپنی آبائی وراثت کودیکھنے کاموقعہ فراہم نہ کرکے ظلم وستم کی پالیسی پرگامزن ہے۔یہ لوگ اندرہی اندرکڑھ رہے ہیں ، اپنے عزیزوں سے ملاقات کوتڑپ رہے ہیں مگرسیاست ! کے شکارہیں اورمجبورہیں؟اِن کی فریاد سننے والاکوئی نہیں۔عارف نے کہاکہ اِن لوگوں کے ذہنوں میں 1947ءکے فسادات کے واقعات آج بھی زندہ وجاویدہیں اورجب وہ اپنی د ±کھ بھری حقیقی کہانی سنارہے تھے تولگتاتھاکہ یہ ابھی تازہ واقعات ہیں۔ اِن لوگوں کے دِلوں میں موجوداِن خوفناک واقعات کاکرب والم ابھی بھی ان کےلئے ذہنی کوفت وپریشانی کاسبب ہے۔ عارف نے کہاکہ ان کے دلوں سے آج بھی ویزے نہ ملنے کے سبب اپنے آبائی وطن ریاست کی ایک ایک مقدم چیزکی زیارت کاموقعہ نصیب نہ ہوناباعث تشویش ہے۔ا ±س نے کہاکہ 1947ءکے سانحہ کی چیخیں ا ±ن کی دردناک حقیقی واقعات سننے سے آج بھی محسوس ہوتی ہیں۔
عارف نے مجھ سے کہاہے جب میں ا ±ن کے دردبھرے جذبات میںآبائی وطن کی محبت کااظہاردیکھتاتو مجھے سیاست سے گن آتی ! کہ آخرکیوں؟ اِن لوگوں کوکیوںسرکارویزے نہیں دیتی ، جب میں ا ±ن سے حقیقی واقعات کوسنتاتوا ±ن کی آنکھوں سے آنسوﺅں کاسمندرا ±مڈکربہناشروع ہوتا اورپھر میری آنکھیں بھی نم ہوجاتیں۔ا ±س نے بتایاکہ ہندوستان میں پھربھی ویزے تھوڑی بہت دوڑدھوپ کرکے مِل جاتے ہیں لیکن پاکستان میں 1000 درخواستوں کے عوِض 10 خوش نصیبوں کوہی ویزے نصیب ہوتے ہیں اورانہیں ریاست جموں وکشمیرمیں اپنے آباواجدادکے پرانے رہائشی مکانات اوراپنے خاندان سے تعلق رکھنے والے احباب سے ملاقات کاشرف حاصل ہوتاہے۔
واضح رہے کہ راقم کاخاندان بھی 1947 ءکے سانحہ کی زدمیں آیاتھا،خاندان سے تعلق رکھنے والے کچھ افرادکوجموں کے ہزاروں مسلمانوں کی طرح بلوائیو ں نے اکھنورپ ±ل پرشہیدکیا۔ بزرگوں سے س ±ناہے کہ جب یہ دردناک سانحہ ہورہاتھاتودریائے چناب میں پانی نظرنہ آتابلکہ لال خون کی دھارائیں بہتی ہوئی نظرآتی تھیں، ہرطرف خوف وہراس کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ان پرآشوب حالا ت میں داداجی اورا ±ن کاایک بھائی اپنی جانیں بچانے میں مشکل سے کامیاب ہوگئے ، نہ جانے کیسے وہ بچیں ہوں گے۔داداجی کے چاربھائی ہجر ت کرکے پاکستان کے شہرسیالکوٹ چلے گئے۔ جموں سے گوجربکروال طبقہ سے تعلق رکھنے والے لاکھوں لوگ دوگھنٹے میں اس سفرکوطے کرکے جانوں کوبچاتے بچاتے سیالکوٹ پہنچ گئے تھے جن میں میرے داداجی کے چاربھائی بھی تھے، اب ا ±ن کاپوراپریوارسیالکوٹ میں زندگی بسرکررہاہے اورمیراچھوٹاعارف بھی اپنے ان ہی رشتہ داروں سے ملاقات کےلئے گیاہواتھا۔
عارف نے مزیدبتایاکہاکہ دونوں ملکوں کی حکومتیں کی ستم ظریفیوں کے شکارہوکرلاتعدادافراداپنے آبائی وطنِ عزیزمیں رہ رہے احباب سے ملاقات کی تمنائیں لیے د ±نیائے فانی سے کوچ کرچکے ہیں تاہم جموں سے تعلق رکھنے والے سیالکوٹ میں ابھی بھی کچھ بزرگ زندگی کے آخری دنوں کوگذاررہے ہیں اوراس ا ±میدمیں ہیں کہ شایدویزہ کےلئے راستہ نکل آئے جس سے ا ±ن کی تمناپوری ہوجائے۔عارف کے مطابق اِن لوگوں کی تمناﺅں کوا ±س وقت اپنی تمناپوری ہوتی ہوئی نظرآنے لگتی ہے جب وہ اخبارات میں یہ س ±رخیاں پڑھتے ہیں کہ ہندپاک مذاکراتی عمل جاری ہے ، مسئلہ کشمیرکے حل میں اہم پیش رفت ہونے کاامکان ودیگرپ ±رامیدخبروں کی س ±رخیوں سے ا ±ن کی تمنائیں کروٹیں بدلتی ہیںکیونکہ وہ امن چاہتے ہیں وہ سرحدوں کی بندش میں قیدہوکررہنے کوترجیح نہیں دیتے۔عارف نے لمبی سانس لیتے ہوئے آہ ! نکالتے ہوئے کہاکہ اللہ بہترجانے کے سیاستدانوں کی طر ف سے چلائے جارہے مذاکراتی عمل سے متعلق اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کی س ±رخیاں کب سچ ہوں گی؟ اوران لوگوں کی تمناپوری ہوگی۔
میں نے عارف سے کہاکہ ایسی بات نہیں ہے کہ ہندپاک مذاکراتی عمل میں پیش رفت نہیں ہوئی ہے کیونکہ مذاکرات کے عمل سے ہی تو2007 میں امن بس سروس کاآغازہوا، مظفرآباد۔ا ±وڑی بس سروس ، پونچھ راولاکوٹ بس سروس ، دہلی بس سروس اوردوسری ٹرینیں جوہندوستان وپاکستان کے مابین چل رہی ہیں۔ عارف نے کہاکہ کشمیروالوں کومظفرآبادبس سروس سے سرحدکے دوسری طرف آباداپنے رشتہ داروں وعزیزواقارب سے ملنے کاموقعہ سرکارنے فراہم کیا ، پونچھ راجوری کے لوگوں کےلئے چکاں داباغ۔راولاٹ سروس شروع کی گئی مگرجموں والوں کےلئے سچیت گڑھ۔سیالکوٹ سرحدکوکیوں نہیں کھولاجاتا، کیونکہ جموں سے سچیت گڑھ۔سیالکوٹ سرحدمحض 35کلومیٹرکی دوری پرہے۔میں نے عارف سے کہاکہ آپ کی بات صدفی صددرست ہے کیونکہ جموں کے لاکھوں لوگ سیالکوٹ میں آبادہیں۔عارف نے کہاکہ مجھے جب دہلی سے ویزہ مل گیاتومیں نے سوچاکہ اب میں ‘کس راستے پاکستا ن جاﺅں کیونکہ راجوری پونچھ یاکشمیروالوں کوتوپرمٹ سسٹم کے ذریعے آنے جانے کی اجازت ہے لیکن جموں والوں کوتوویزہ اگرمل جاتاہے ا ±ن کے پاس پاکستان جانے کےلئے 2ہی راستے ہیں،ایک دہلی۔لاہوربس سروس کے ذریعے یاپھرامرتسرپنجاب سے بذریعہ اٹاری ٹرین یاواہگہ بارڈرسے بس سروس کے ذریعے۔ اٹاری اورواہگہ بارڈرتوامرتسرمیں ہیں جوکہ جموں سے 600-700کلومیٹرکی دوری پرہے اوردہلی بھی اس سے زیادہ مسافت طے کرکے ہی پہنچاجاسکتاہے۔ میں نے آخرکار فیصلہ لیاکہ دہلی۔لاہوربس سروس کے ذریعے پاکستان جاﺅں گااورپھرمیں دہلی۔لاہوربس سروس کے ذریعے پاکستان گیا۔ 
دیکھیے جناب ! جموں کے مسلمانوں کے ساتھ حکومت ہنداورخصوصی طورپرریاستی سرکارکتنی ناانصافی کررہی ہے۔سرکارکوجموں کے مسلمانوں کوبھی پونچھ راجوری اورکشمیرکے مسلمانوں کی طرح سچیت گڑھ اورسیالکوٹ کے راستے آنے جانے کی اجازت دینی چاہیئے اوریہ سرحدتجارت اورآواجاہی کےلئے کھول دینی چاہیئے۔غورطلب ہے کہ اگرحکومت ہنداورپاکستان سرکارافہام وتفہیم کے ذریعے مذاکراتی عمل کوآگے بڑھارہی ہیں اوردونوں ملکوں کے درمیان پائے جانے والے تنازعات کے حل کےلئے کاوشو ں میں مصروف ہیں تواگرجموں اورسیالکوٹ کے لوگوں کے دِلوں کوجوڑنے کےلئے سچیت گڑھ۔سیالکوٹ سرحدآواجاہی اورتیارکےلئے کھول دے توکوئی حرج نہیں؟ کیونکہ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں ایک خوشگوارفضاقائم ہوگی جوکہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
عارف کی بتائی ہوئی باتوں جوا ±س نے ا ±ن لوگوں سے متعلق بتائیں جولوگ یہاں سے ہجرت کرکے گئے سیالکوٹ میں زندگی کے آخری ایام گذاررہے ہیں کے احساس وجذبات کااندازہ اوراپنے آبائی ملک ریاست اوراپنے عزیزواقارب سے ملنے کی تمناوآرزوکاانداہ راقم الحروف کے ناناجوغلام حسین پردیسی سیالکوٹ کے فتاح گاﺅں میں آبادہیں کی جانب سے میری چھوٹی بہن کے نام لکھے ایک خط سے ہوجاتاہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ 
”بیٹی کاش! میں پرندہ ہوتا، آپ کی دہلیزپہ ہوتا۔میں الفاظ کے ذریعے جذبات کااحساس کیسے کروں ، بیٹی نہ عمرہے نہ تعلیم، لیکن بیٹی مجبورہوں۔
لکھاپردیس قسمت میں وطن کویادکیاکرنا
جہاں بے دردحاکم ہوں وہاں فریادکیاکرنا“
ایک اوراقتباس میں لکھتے ہیں کہ 
”بیٹی! زندگی گذرجائے گی 
یادتمہاری قبرمیں بھی آئے۔لیکن بیٹی آپ کی د ±عائیں ضرورمنظورہوں گی۔
بیٹی نمازکوقائم فرمائیں۔ د ±عاﺅں میں یادفرمائیں۔ اللہ تعالیٰ کریم ہے۔ کرم فرمائے گا۔ ذراحوصلہ رکھیں۔ میری التجامالک سے۔یامیرے اللہ ! مجھے پیاروں سے ملنے کی مہلت عطافرماتاکہ چاہنے والوں کومیں بہ شکل چہرہ دکھاکرمروں تاکہ قیامت کے دن وہ مجھے پہچان سکیں۔ 
مزیدلکھتے ہیں کہ 
پردیسی تومنزل مقصودپہ پہنچے گاضرور
عزم صادق گرچہ تیرے مقدرنے کیا
”سوسوجوڑسنگت دے ڈِٹھے آخروِتھاں پیاں
جنہاں دے واج ایک پل نہیں جیوندے شکلاں یادنہ رہیاں“(پنجابی شعر)
واضح رہے کہ اس شخص غلام حسین پردیسی کوریاست جموں وکشمیرکی سرکارنے 1947 سے قبل ریاست کے بہترین کسان کے ایوارڈسے نوازاتھا۔ ا ±س نے اپنے ایوارڈکوبڑی احتیاط سے سنبھالے رکھاہے۔ وہ اس سے متعلق خط میں لکھتے ہیں کہ
بیٹی ! برخوردارنورچشم سے یعنی محمدعارف سے دریافت کرنامیں نے ا ±سے پراناسرٹیفکیٹ دکھایاتھاا ±س نے سرٹیفکیٹ کوپڑھ کرمجھے بتایاکہ نانوں جان آپ کی عمر87 سال ہوچکی ہے۔ 
سانحہ کے مزید دردناک حالات کوبیان کرنامقصودنہیں ‘نہ ہی کسی شخص کوسانحہ کے ہولناک واقعات کی یاددِلاکردِل آزادی کرنے کی کوشش کروں گا۔سانحہ تقسیم برصغیرکے ذمہ دارکون لو گ تھے؟ ، یہ طویل بحث ہوگی۔لہذامضمون مختصرہے اس لیے طوالت سے بچنے کےلئے اس پہلوپرکسی اوردِن بات کروں گا۔اللہ تعالیٰ سے د ±عاگوہوں کہ سیاستدانوں کوہدایت فرمائے تاکہ و ہ نیک نیتی سے مذاکراتی عمل میں اہم پیش رفت کریں اوردونوں ملکوں کے جد ±اہوئے دِلوں میں پیداہوئی دوری مٹ سکے۔

Be Rozgari ka Hal Hunar Mandi Mein


بے روزگاری کاحل ہنرمندی میں
طارق ابرارجموں
رابطہ نمبر:9596868150
دورِحاضر میں پوری دنیا سمیت ہمارے ملک اور ریاست جموں وکشمیرکی عوام اور سرکارکوبے روزگاری کے مسئلے نے خاصہ پریشان کررکھاہے۔بیسویں صدی کے شروعاتی دور میں ہرکس و ناکس کوبغیرمشقت نوکری گھربیٹھے ہی مل جایاکرتی تھی ۔اگرکوئی صحت مند اور تندروست نوجوان محکمہ پولیس یافوج کوکہیں مل جاتاتووہیں سے اُس کواپنے ساتھ محکمہ میں شامل کرلیاجاتاتھا ۔اوراگرکوئی پانچویںیااس سے زیادہ پڑھالکھامل جاتاتومحکمہ تعلیم یا دیگر محکماجات میںشامل کرلیاجاتا تھا،گویا کام کرنے والے کم اور کام زیادہ تھا اس لئے آسانی سے نوکری مل جاتی تھی اتنا ہی نہیں صاحبِ ثروت اور زمین دار لو گ زیادہ تر نوکری کرنا معیوب سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ انگریزی حکومت کو اپنے کام کاج کے لئے ہندستانی لوگ ملنا مشکل ہورہاتھا تو انھوں نے اپنے اس مقصد کے حصول کے لئے اپنا نصاب بناکر تعلیم کو عام کر نے اور آرام و آشائش کا لالچ دے کر ملک کے نوجوانوں کو تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دینی پڑی۔ پھرآہستہ آہستہ ملکی و ریاستی نوجوانوں میں تعلیم کے تئیں رجحانات بڑھناشروع ہوئے اوردیکھتے ہی دیکھتے ملک کے طول وعرض سے طلباءکی بھاری تعدادسکولوں سے نکل کرکالجوں تک پہنچنے لگی اورپھر مختلف جامعات سے ڈگریاں حاصل کرنے کے بعدانہیں ملازمت کے مواقع ملنے لگے ۔نوجوانوں میں تعلیم کے تئیں پیداہوئے رجحان میں اضافہ کا نتیجہ یہ نکلاکہ اب ملک میں اعلیٰ تعلیم یافتہ طلباءکی تعدادروز بروزبڑھنے لگی اورپھرعام سی ملازمت یعنی درجہ چہارم کی اسامی کے لیے بھی ایم۔اے،بی۔ایڈ، نیٹ،ایم فل اورپی ایچ ڈی جیسی بھاری بھرکم اسنادیافتہ نوجوانوں کوقطاروں میں کھڑے ہونے کی نوبت آگئی۔کہنے کامطلب صاف ہے کہ جہاںبیسویں صدی کے آغاز میں ہرکسی کوسرکاری ملازم ہونے کا موقع بہ آسانی مل جاتاتھاوہیں آج اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے اوراعلیٰ درجہ کی ڈگریاں رکھنے کے باوجود میری ریاست سمیت ملک کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کوسرکاری نوکریاں ملناجوئے شیر لانے کے مترادف ہو رہا ہے۔پہلے جہاں ریاستی حکمراں کہتے تھے کہ دسویں کرو، بارہویںکروتوسرکاری ملازمت کاموقع مل جائے گاوہیں آج سیاسی لیڈران اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کوعام سی ملازمت کےلئے قطاروں میںکھڑادیکھ کربے روزگاری کے مسئلے پرتشویش جتانے لگے ہےں اس مسئلے کا سامنا کرنے کے لئے یہ بیان بھی ا ن کی طرف سے جاری ہونے لگا کوہے کہ خودروزگاریونٹوں کوقائم کرو۔اس کےلے سرکارمختلف اسکیموں کے تحت خودروزگاریونٹ قائم کرنے کےلئے قرضہ فراہم کرے گی ۔ریاستی سرکارکی جانب سے نوجوانوں کی فلاح وبہبودکےلئے اورخصوصی طورپرخودروزگاریونٹوں کے قیام کےلئے شروع کی گئی اسکیموں کافائدہ راقم کے اندازے کے مطابق بہت کم لوگوں کوپہنچ پا رہاہے ،شاید اس کی وجہ کرپشن اور غبن بھی ہوسکتا ہے ۔میں اس بحث میں نہیں پڑناچاہتاکہ سرکاری اسکیموں کافائدہ نوجوانوں تک کیوں نہیں پہنچ پارہاہے۔ہاں نوجوان دوستوں کو میرا یہ مشور ضرور ہے کہ ”بے روزگاری کاحل ہنری مندی میں مضمرہے “ ۔ میری نظرمیں ہنرکامطلب ہے کسی کام میں مہارتِ تامہ حاصل کرنا ہے ۔ خواہ وہ پینٹنگ بنانا،کمپیوٹرچلانا،لوہارکاکام،فنِ کتابت، کھانے پینے کی چیزیں تیارکرنا، کھلونے بنانے ، درزی کاکام جاننا، اچھاصحافی بننا،اچھاٹائپسٹ ہوناودیگربے شمارایسے کام جنھیں انسان اپنے خداداد صلاحیت کے مطابق بطورپیشہ اپناکر اپناکیئرئیربناسکتاہے اوریہی ہنرذریعہ معاش ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کومقبولیت کے دوام تک پہنچنے کابہترین ذریعہ بھی بن سکتاہے۔ آج ہمارے ملک و ریاست اور سماج میں بے شمارایسے نوجوان ہیں جن کے پاس تعلیمی قابلیت توہے لیکن پھربھی وہ بے روزگارہیں۔ وہ کسی ہنرکوحاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے بلکہ ہُنر کو معیوب سمجھنے لگے ہیں ۔ حالانکہ جس شخص کے پاس اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ کوئی ہنر بھی ہوگاتواُسے کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتایعنی حصولِ تعلیم کے ساتھ ہُنرمندی سونے پر سہاگہ والی بات ہوگی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بابائے قوم گاندھی جی نے ہندوستانی معیشت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے ابتدائی اسکولوں میں ہر بچے کو ایک کرافٹ لینے کا نہ صرف مشورہ دیا بلکہ تعلیمی نصاب کا ایک حصہ بناکر سب کے لئے ضروری کر دیا تھا ،تاکہ ایک بچہ تعلیم یا فتہ ہونے کے ساتھ کسی ہُنر میں ماہر بھی ہو ۔وہ چاہتے تھے کہ ہُنر کے ذریعہ بچوں کو تمام سبجیکٹ جیسے علم معاشیات،علم ریاضی،علم کیمیا،وغیرہ پڑھائے جائیں تاکہ بچہ ان کی باریکیوں کو سمجھ سکے اور وقت ضرورت اپنے والدین کی معاشی طور پر مدد بھی کر سکے ۔ 
کوئی ایک ہنر بھی جب انسان میں آجاتا ہے تواُس میں خود اعتمادی پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے وہ مشکلات سے لڑنے کے قابل بن جاتاہے۔ کچھ لوگ ساری عمرڈگریوں کے حصول کی جدوجہدمیں رہتے ہیں لیکن اُنہیں ڈگری حاصل کرنے کے بعدبھی ہنرنہ ہونے کے سبب خودکشی پرمجبورہوناپڑتاہے۔کم ہمت ، کاہل اورمحنت سے دوربھاگنے والے بزدل کہلاتے ہیں اورجومحنت سے کام لیتے ہیں ہنرکواپنے اندرسمولیتے ہیں اُن میں بردباری ، خوداعتمادی اُن لوگوں کے برعکس زیادہ ہوتی ہے جومحنت سے دوربھاگتے ہیں۔اس لئے نوجوان دوستوں کوسمجھناچاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہرکسی کو الگ الگ صلاحیتوں سے نوازاہے کیونکہ بیشترلوگوں میں یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔یہ ایک قسم کا نفسیاتی ڈرہوتاہے کہ میں کچھ نہیں کرسکتا۔ اگرکوشش کرے تووہ بہت کچھ کرسکتاہے اورکئی مرتبہ توایسادیکھاگیاہے کہ کچھ لوگ کچھ نہ کرنے کاڈرجواُن کے دل میں ہوتاہے اس کونکال کربڑے بڑے غیرمعمولی کارنامے انجا م دے جاتے ہیں، اس لیے کم از کم مسلم نوجوانوں کوچاہئے کہ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ کسی ہنرکواپنائے اورہنرحاصل کرنے میں جوسختیاں آئیں اُن کوسختیاں یازحمت نہ سمجھیں بلکہ ایک امتحان کے طورپرتسلیم کرےں۔کیونکہ کسی بھی امتحان کو پاس کرنے کے لئے صبر کے ساتھ سخت محنت کی ضرورت ہوتی ہے ۔
مجھے اسکول کے زمانے میں میرے استاد کا بیان کردہ ایک واقعہ یاد آگیا وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک لڑکے نے اسکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ بجلی کاکام سیکھنا شروع کردیا،جب وہ ا سکول سے تاخیر سے آتاتھاتوماںسوال کرتی، بیٹا ! تم روزانہ اسکول سے لیٹ کیوں آتے ہو؟۔ماں! میں اسکول سے فارغ ہو کر بجلی کا کام سکھنے چلا جاتا ہوں۔ماں: تم یہ کیا فضول کا کام کر رہے ہو۔ ہم تم کو پڑھنے کے لیے اسکول بھیجتے ہیں اور تم ایک جاہلوں والاکام سیکھ رہے ہو۔ تمھیں صرف اور صرف پڑھائی کرنی ہے کام نہیں۔لیکن وہ نہ مانا پڑھائی کے ساتھ ساتھ کام بھی سیکھتارہا۔ وقت گزرتا گیا اور وہ پڑھ کر فارغ ہوگیا۔اس نے انگلش میںایم اے کیا تھا۔ اس کو ا ±مید تھی کہ کوئی اچھی نوکری مل جائے گی۔وہ روز انہ اپنی ڈگریاں لے کر دفتروںکے چکر کاٹا کرتا تھا۔لیکن اس کو کوئی کام نہیں ملاوہ بہت مایوس ہوا۔اور اس نے آخر کار مجبور ہو کر بجلی کا کام شروع کر دیا،جس سے نہ صرف اپنے گھر والوں کے اخراجات پورا کرنے لگا بلکہ ہزاروں تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے معاش کا ذریعہ بھی بن گیا ، اب لوگ بڑی بڑی ڈگریاںلے کر اس کے یہاں نوکریاں مانگنے آنے لگے۔اور یہ سب کچھ ہنر سیکھنے کی وجہ سے ممکن ہوا۔کیوں کہ اس نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ ہنر بھی حاصل کیاتھا۔اس لیے وہ فاقہ کشی اور در در بھٹکنے سے بچ گیا لہذا ہم کو بھی چاہیے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر ضرور حاصل کریں۔ کیوں کہ آج کل کے دور میں ہنر کے بغیر انسان کا زندگی بسر کرنا نا ممکن ہے۔ہنر چاہے کیسا بھی کیوں نہ ہو انسان کو بھوکا نہیں مرنے دیتا۔ ہنر سے انسان میں ایک خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ ہنر سے انسان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔اور وہ معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کے قابل بنتا ہے۔ جس کی کئی مثالیں ہمیں اسی دنیا میں ملتی ہیں جیسے بھاپ کا ریلوے انجن کی بنیاد رکھنے والے جارج اسٹیفن اور ہوائی جہاز کا تصور دینے والے رائٹ برادرس وغیرہ کے علاوہ ہمارے ملک میں ٹاٹا،متل ،سہارا اور امبانی گروپس کی بھی مثال دی جاسکتی ہے۔میرے کہنے کا ہرگزیہ مطلب نہ سمجھا جائے کہ تعلیم چھوڑ کر صرف ہُنر ہی سیکھی جائے بلکہ میرا مطلب صرف یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اپنی حکومت کا بوجھ بننے کے بجائے حکومت اور ملک کا سہارا بننے کی کوشش کی جائے ۔کیونکہ خاص طور سے ریاست جموں وکشمیرمیں ریاستی سرکاراورنوجوانوں کےلئے بے روزگاری ایک خطرناک مسئلہ کی شکل میں اُبھرکرسامنے آ رہی ہے ۔ اس لئے میری ذاتی رائے ہے کہ سرکارکوچاہئے کہ جواسکیمیں نوجوانوں کی فلاح وبہبوداورانہیں ہنرمندبنانے کےلئے شروع کی گئی ہیں اُنہیں زمینی سطح پر سخت نگرانی میں لاگوکی جائے،تاکہ کرپشن اور غبن کا سایہ بھی اس پر نہ پڑسکے۔ ساتھ ہی نوجوانوں کوبھی سمجھناچاہئے کہ جب تک ہنرمندی کا فروغ ریاست میں نہ ہو گا تب تک بے روزگاری کامسئلہ حل نہیں ہوگا، ہماری ریاست تو فروٹ اور اپنے شاندار آرٹ،فن اور دستکاری کے لئے پوری دنیا میں مشہور ہے ،ہمارے آبا واجداد نے اس دستکاری سے نہ صرف معاش کا مسئلہ حل کیا تھا بلکہ دنیا میں اپنا ایک مقام بھی بنایا تھا پھر ہم اس فنون لطیفہ سے بے گانے کیوں ہورہے ہیں ؟ہم اپنے اس فن کو بروئے کار لاکر اپنی ریاست وملک کی ترقی کا حصہ کیوں نہیں بن پارہے ہیں ؟اس لئے میں اپنے تمام ریاستی دوستوں سے گزارش کر تا ہوں کہ تعلیم کے ساتھ کوئی نہ کوئی ہنر ضرور حاصل کریںتاکہ ملکی وریاستی ترقی میں اپنارول اداکرنے کے ساتھ ساتھ اپنے آباو اجداد کی تخلیقات سے دنیا کو روشناس کرائیں ،تاکہ پھر سے دنیا ہماری ریاست کی قدرتی خوبصورتی، آسودگی اور پُر سکون ماحول کو دیکھ کر جنت کہنے پر مجبور ہوجائے

Tuesday 4 September 2012

گوجربکروال طبقہ کاخیرخواہ رہنما:شیرکشمیرشیخ محمدعبداللہ 

طارق ابرار
(رابطہ:موبائل :9596868150)
گوجربکروال طبقہ ریاست کے پسماندہ طبقہ جات میں سے ایک ہے اوراس کی پسماندگی کاروناہرطرف رویاجارہاہے ۔ حقائق بھی یہی بتاتے ہیںکہ واقعی اس طبقہ کے لوگ بہت مفلوک الحال اورکسمپرسی کی زندگی بسرکررہے ہیں۔اسکااگرباریک بینی سے مشاہدہ کیاجائے توہرذی شعورانسان کے ذہن میںایک سوال یہ جنم لیتاہے کہ اس طبقہ کی خستہ حالی کے اسباب کیاہیں؟ جن کے باعث یہ طبقہ ترقی یافتہ دوریعنی اکیسویں صدی میں بھی پسماندگی کاشکارہے اور دوسرے طبقوں کے ساتھ شانہ بشانہ ترقی کرنے سے محروم ہے۔ دوسراسوال یہ بھی پیداہوتا ہےکہ اس طبقہ کی پسماندگی کے پیچھے جو عوامل کارفرما ہیں ان کا سدباب کیسے کیاجائے؟ 
گوجربکروال طبقہ کی ریاست جموں وکشمیرمیں اپنی مخصوص شناخت، کلچر، تہذیب اور لسانی تاریخ ہے۔اس طبقہ کی حالت زارکااندازہ شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ نے اپنی وسیع النظرسوچ کے ذریعے بہت پہلے لگایاتھا، اُنہوں نے دانشوروں ومفکرین کے نظریات کومدنظررکھتے ہوئے اس طبقہ کی پسماندگی کودورکرنے کےلئے تعلیم کوہی واحدذریعہ سمجھاکیونکہ مفکروںو دانشوروں کے نظریے کے مطابق دُنیاجب سے قائم ہے تب سے ہی کسی بھی قوم یاطبقے کی حالت زارکوسدھارنے میں تعلیم نے ہی اہم کرداراداکیاہے لہذامعروف رہنمانے بھی گوجربکروال طبقہ کی پسماندگی کودورکرنے اورتعمیروترقی ،گوجربکروال طبقہ کے سرخرو ہونے کا واحد ذریعہ سمجھا۔چوں کہ شیرِ کشمیرشیخ محمدعبداللہ ریاست کی تاریخ کے اہم ترین شخصیت رہیں ۔انہوں نے طبقہ کوزیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کےلئے گوجربکروال ہوسٹلوں کاقیام عمل میں لاکرگوجرطبقہ کے نوجوانوں کوبھی دوسرے طبقوں کے ساتھ ترقی کاموقعہ فراہم کیاجوکہ گوجربکروال طبقہ پرشیرِکشمیرکااحسانِ عظیم ہے۔شیرِ کشمیربخوبی جانتے تھے کہ گوجر نوجوان اگرزیورِ تعلیم سے آراستہ ہوجائیں گے تواُن میں سماج میں طبقہ کے وقارکوبلندکرنے کی سمجھ بوجھ وشعورپیداجائے اوروہ طبقہ کی فلاح وبہبودکےلئے منصوبہ بندی کے ساتھ کام کریں گے اور طبقہ کی پسماندگی ومفلوک الحالی کے خاتمے کاسبب بنیں گے۔کہنے کامطلب ہے کہ شیرِکشمیرشیخ محمدعبداللہ نے گوجربکروال طبقہ کوپسماندگی سے نجات دلانے کی ذمہ داری طبقہ کے نوجوانوں کے کاندھوں پرڈالی تھی۔شیرِ کشمیرنے خانہ بدوش گوجر بکروال طبقہ کی پسماندگی کودورکرنے کے لئے جواقدامات کئے وہ ریاست کی کوئی دوسری شخصیت نہیں کرسکی ۔شیرکشمیرشیخ محمدعبداللہ کی گوجربکروال طبقہ کے تئیں بے لوث خدمات کاہی نتیجہ ہے کہ گوجربکروال طبقہ کے نزدیک شیرِ کشمیرمحبوب ترین رہنماتصورکئے جاتے ہیں۔
شیرکشمیرنے اس طبقہ کی پسماندگی کی بنیادی وجہ تعلیم سے دوری کوتسلیم کرتے ہوئے گوجربکروال طبقہ کے لوگوں کوتعلیم کے زیورسے آراستہ کرنے کےلئے ہوسٹلوں کاقیام عمل میں لایااور ریاست کے ہر ضلع میں ہوسٹلوں کے قیام کی منظوری دی چونکہ گوجربکروال طبقہ زمانہ قدیم سے خانہ بدوشی کی زندگی بسرکرتاآرہاہے اوراس طبقہ کے لوگوں کے اپنے گھر بار اورزمین وغیرہ نہیں ہوتی، خانہ بدوشی کی زندگی میں درپیش آنے والی مشکلات کومدنظررکھتے ہوئے طبقہ کے خیرخواہ رہنمانے ہرضلع میں ہوسٹل قائم کئے۔ہوسٹلوں میں طبقہ کے نوجوانوں کوضلع کے مرکزی مقام پراکٹھاکرکے تعلیم دینے کامقصد طبقہ کے نوجوانوں کے دِل ودِماغ میں رچی بسی خانہ بدوشی کی زندگی سے باہرلایاجاسکےتاکہ وہ بھی بیرونی دُنیاسے واقف ہوکرطبقہ کی حالت زارکاموازنہ دوسری قوموں کے ساتھ کریں اوراُن کے دِل میں بھی طبقہ کی حالت کوسدھارنے کےلئے شوق پیداہو۔
  اس میںکوئی شبہ نہیں کہ شیرِ کشمیرشیخ محمدعبداللہ نے گوجربکروال طبقہ کے نوجوانوں کےلئے ہوسٹلوں کے قیام کی منظوری دے کر انقلابی وتاریخ سازفیصلہ صادرکیا۔گوجربکروال ہوسٹلوں کے قیام کی منظوری کافیصلہ اس بات کاواضح ثبوت ہے کہ شیرکشمیرگوجربکروال طبقہ کی پسماندگی کودورکرنے کے متمنی تھے ، طبقہ کی پسماندگی کودورکرنے کےلئے شیرکشمیرچاہتے تھے کہ ہوسٹلوں میں زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوکریہی نوجوان طبقہ کی پسماندگی کودورکرنے کاسبب بنیں۔ 
شیرِکشمیرشیخ محمدعبداللہ کی گوجربکروالوں کےلئے بے لوث خدمات کوطبقہ کبھی فراموش نہیں کرسکتا، کیونکہ بیسویں صدی کی ساتویں دہائی میںگوجربکروال طبقہ کی فلاح وبہبودکےلئے شیرکشمیرکے اُٹھائے گئے اقدامات کے باعث آج بے شمار گوجربکروال گھرانے خوشحالی کی زندگی بسرکررہے ہیں ۔اِن گوجربکروال ہوسٹلوں سے تعلیم حاصل کرکے سینکڑوں کی تعدادمیں نوجوان اہم شعبہ جات میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مثلاًڈاکٹر،انجینئر، کرنل، میجر، انسپکٹر،صحافی، وکیل کے طورپر بے شمارنوجوان اپنی خدمات سماج کےلئے انجام دے رہے ہیں ۔بات کہنے کامقصدیہ ہے کہ ہوسٹلوں سے تعلیم حاصل کرنے کے سبب بے شمارنوجوانوں کوسرکاری ملازمتیں نصیب ہوئیں جس کے باعث اُن کی زندگی خوشحال ہوگئی لیکن ہوسٹلوں سے پڑھ لکھ کراپنی زندگی میں اعلیٰ وقارحاصل کرنے والے نوجوان اس بات کوبھول گئے کہ شیرِ کشمیرشیخ محمدعبداللہ کاہوسٹلوں میں تعلیم دِلانے کامقصدکیاتھا؟ 
جس کسی کوبھی ملازمت ملی وہ اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں مصروف ہوگیا، اوراس قدرمصروف ہوگیاکہ اس کے پاس طبقہ کے ذی شعوروباصلاحیت نوجوانوں کوصحیح سمت دینے کاوقت تک بھی نہ بچا۔مصروفیت کے اس عالم کے سبب طبقہ کے بے شمارباصلاحیت نوجوان غلط وگمراہ راہوںپرچل پڑے اوران کاہنراُن کے اندردفن ہوکررہ گیا۔تنبیہہ مقصدنہیں لیکن حقیقت آخرحقیقت ! سچائی سے کسی صورت منہ نہیں پھیراجاسکتا۔ہوسٹلوں سے شعورکی منزل تک پہنچنے والے کسی نوجوان نے اگرکبھی طبقہ کےلئے آوازبلندکرنی کی کوشش کی تواُس نے اپنے آپ کواکیلاپایا! یعنی اِتحادکی کمی محسوس ہوئی ۔اگرطبقہ کے باشعورنوجوانوں کااِتحادہوجائے تواس طبقہ کے نوجوان آنے والے وقت میں وہ کارنامہ انجام دے سکتے ہیں جن کاخواب شیرِکشمیرشیخ محمدعبداللہ نے دیکھاتھااورہوسٹلوں کے قیام کے وقت محسوس کیاتھایعنی طبقہ کی پسماندگی کودورکرسکتے ہیں۔ یعنی انفرادی طورپرکوشش کرنے والے نوجوان کی حوصلہ افزائی کی جائے اورمشترکہ طورپرمنصوبہ بندی کرکے ان کوعملی جامہ پہننانے کےلئے منصوبہ تشکیل دیناچاہیئے ۔آج بھی گوجربکروال طبقہ کے بچے ایسے ہیں جوبے شماروخدادادصلاحیتوں کے مالک ہیں لیکن وسائل کی کمی ہونے کے باعث وہ اپنے اندرچھپی صلاحیتیوں کوباہرنہیں نکال پاتے جس کانتیجہ یہ ہوتاہے کہ اُن کاساراہنرضائع ہوجاتاہے اورزندگی میں انہیں ہمیشہ دوسروں کے سامنے ندامت کاسامناکرناپڑتاہے۔
 گوجربکروال ہوسٹلوں سے فیض حاصل کرنے والے تمام نوجوانوں کواپنامحاسبہ کرناچاہیئے کہ اُنہوں نے طبقہ کی فلاح وبہبودکےلئے کیاشیرِ کشمیرکے خواب کے مطابق کام کرکے ہوسٹل میں پڑھنے کافرض اداکیااوراس کے حِصے میں آئیں ذمہ داریوں کونبھایایانہیں ؟
ریاست جموں وکشمیرمیں گوجربکروال طبقہ کی فلاح وبہبودکےلئے سرکارکی جانب سے گوجربکروال مشاورتی بورڈقائم ہے ، بورڈکوبھی ایک منصوبہ تشکیل دے کر ہوسٹلوں میں تعلیم حاصل کررہے طلباءکے اہداف مقررکرکے مقابلہ جاتی دورمیں تمام ترمشکلات کوپارکرنے کےلئے تیارکرناچاہیئے ۔گوجربکروال طبقہ کی فلاح وبہبودکےلئے بے شمارغیرسیاسی تنظیمیں قائم ہیں لیکن وہ صرف اخباری بیانات چھپوانے کے سواکوئی فعال کام انجام دینے میں کارگرثابت نہیں ہورہی ہیں ۔ مثال کے طورپرہوسٹلوں میں تعلیم وتربیت کانظام اِسقدرخستہ ہے کہ اُن کی دیکھ ریکھ کےلئے کسی بھی تنظیم کانمائندہ دورہ کرکے حکومت کوطلباءکودرپیش مشکلات ، سہولیات کے فقدان ، ذمہ داران کی لوٹ کھسوٹ سے آگاہ کرنے کےلئے سامنے نہیں آتا۔جس کانتیجہ یہ ہے کہ ہوسٹلوں میں نظام تعلیم زوال پذیرہوتاجارہاہے یعنی ہرکوئی اپنے آپ کوکسی کامخالف نہیں بناناچاہتاہے جس کانتیجہ یہ ہے کہ لوٹ کھسوٹ کرنے والے بے خوف وخطرلوٹ کھسوٹ میں مصروف ہیں۔اخبارات میں تعلیمی اداروں میں وقتاً فوقتاً مختلف عنوانات کے تحت سیمی نارودیگرتقریبات کاانعقادکی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں لیکن گوجربکروال ہوسٹلوں میں کسی بھی قسم کی تقریب منعقدہونے خبردیکھنے کونہیں ملتی جواس بات کاواضح ثبوت ہے کہ گوجربکروال ہوسٹلوں کے طلباءکوموجودہ دورکی تعلیم کے مطابق تعلیم دستیاب نہیں کرائی جارہی ہے کیونکہ سیمی ناراورمختلف عنوانات کے تحت تقریبات کے ذریعے طلباءکے ذہن کی اضافی پرورش ہوتی ہے اوراِسے بے شمارنئی معلومات حاصل کرنے کاموقعہ ملتاہے جوکہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
میری اُن تمام نوجوانوں سے مودبانہ اپیل ہے جنھوں نے ہوسٹلوں سے تعلیم حاصل کی ہے کہ وہ طبقہ کوشیرِکشمیرکے خواب کوشرمندہ تعبیرکرنے کےلئے طبقہ کومثالی طبقہ کے طورپرپیش کرنے کےلئے اتحادکے ساتھ صفِ آراہوکرایک مہم ومنصوبہ بندی کے ساتھ مشترکہ طورپرایک مقصدکے تحت کام کریں تاکہ کوئی دوسرے طبقے کاشخص یہ نہ کہے کہ گوجربکروال طبقہ کے نوجوان شیرکشمیرکی خدمات کوبھول گئے اوراُس کے مقصدکوپوراکرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ طبقہ کو شیرکشمیر کی خدمات کواُجاگرکرنے کےلئے سیمی نارودیگرتقریبات کاانعقادبھی کرناچاہیئے اورایک پلیٹ فارم پرحکمت عملی کے ساتھ کام کرناچاہیئے۔آخرمیں اللہ تعالیٰ سے دُعاہے کہ طبقہ کے تمام نوجوانوں میں اتحادپیداکرے تاکہ وہ طبقہ کوبلندمرتبہ عطاکرنے میں اپنااہم وسرگرم رول اداکرسکیں۔


Sunday 2 September 2012

AWAZ DE RAHI HAI TUMHEIN MUMKINAT KI DUNIYA.



آوازدے رہی ہے تمہیں ممکنات کی دنیا
(Tariq Ibrar, Jammu)

اس میں شک نہیں کہ کسی بھی ملک ، قوم اورریاست کے مستقبل کاانحصارا±س ملک، قوم اورریاست کے نوجوانوں پرمنحصرہے۔ اگرا±س ملک یاقوم کے نوجوان اپنی صلاحیتوں کوبر?ے کارلاکرملک کامستقبل سنوارنے کی کوششیں کریں تویقیناا±س ملک یاقوم کامستقبل روشن ہوسکتاہے۔ کسی بھی ملک کےلئے نوجوان ایسے ہیں جیسے کہ آسمان میں چمکتے ستارے۔آسمان میں بے شمارستارے ہوتے ہیں ، کچھ ستاروں کی چمک اتنی زیادہ ہوتی ہے ا±س کی روشنی سے زمین پربسنے والے انسان فیض یاب ہوتے ہیں جبکہ کچھ ستاروں کی چمک کم ہوتی ہے۔اسی طرح ہرنوجوان کی صلاحیتیں الگ الگ نوعیت کی ہوتی ہیں۔اکثروبیشترس±نااورکہاجاتاہے کہ طلبائ کواپناکیئریئرا±سی میدان میں بنانے کاموقعہ فراہم کرناچاہیئے جس کی طرف ا±س کارجحان ہوتاکہ وہ اپنے اندرپنہاں صلاحیتوں کابھرپورمظاہرہ کرسکے۔ کچھ نوجوانوں کارجحان تعلیم کی طرف بالکل کم ہوتاہے لیکن عملی زندگی میں وہ خود اپنے لیے ایسی راہیں تلاش کرکے ایساکام کرجاتے ہیں جس پرعام آدمی کایقین کرپانامشکل ہوتاہے۔بعض اوقات ایسابھی ہوتاہے کہ طلبائ کی منشائ کے برعکس یعنی جس شعبے ،مضمون یافیلڈکی طرف ا±س کارجحان نہیں ہوتاہے ا±س کی طرف ا±سے زبردستی دھکیل دیاجاتاہے جس کانتیجہ یہ نکلتاہے کہ وہ اس طرح کی کارکردگی پیش نہیں کرپاتا جس طرح سے وہ اپنے پسندکے شعبے میں انجام دے سکتاتھا۔ میرے کہنے کامطلب یہ ہے کہ ہرنوجوان میں اللہ تعالیٰ نے صلاحیتوں کاخزانہ پنہاں رکھاہواہے لیکن ا±س کی صلاحیتوں کی نشاندہی کرکے ا±سے ا±س کے رجحان سے مطابقت رکھنے والے شعبے کی طرف مائل کرنے سے ہی ا±س کی صلاحیتوں کافائدہ ملک وقوم کوپہنچ سکتاہے۔ اب سوال پیداہوتاہے کہ طلبائ کی صلاحیتوں کی نشاندہی کون کرے ؟۔اس معاملے میں طلبائ کے والدین، اساتذہ اورسماج کادانشورطبقہ ہی باہمی روابط سے ا±ن کی صلاحیتوں کی نشاندہی کرسکتے ہیں۔

کوئی بھی طالب علم جب چھوٹی جماعتیں پاس کرکے اگلی جماعتوں کی طرف بڑھ رہاہوتاہے ا±سے معلوم نہیں ہوتاکہ ا±سے کون سے مضامین رکھنے چاہیئں جوا±س کے مستقبل کوسنوارنے میں کام آئیں گے ،اس کے لیے لازمی ہے کہ تمام والدین اوراساتذہ کوچاہیئے کہ وہ طالب علم کی صلاحیتوں کے عین مطابق طالب علم کی مضامین رکھوانے میں رہنمائی کریں اورسب سے اہم کہ اس طالب علم کاایک Goal یعنی مقصد(منزل) مقررکیاجائے اوراسی کے مطابق ا±س کواضافی جانکاری فراہم کرنے کااہتمام کیاجائے۔یہ بھی خیال رکھاجائے کہ طالب علم پرکسی بھی قسم کادبا? نہ ڈالاجائے تاکہ وہ اطمینان سے بغیر کسی جھجھک کے اپنی منزل کی جانب اپنے قدم بڑھانے کاباقاعدہ آغازکرسکے اوراسے اپنی منزل کاسفرطے کرنے میں کسی قسم کی پریشانی کاسامنانہ کرناپڑے۔

جب ایک نوجوان اپنی منزل کے سفرکاآغازکرلیتاہے توا±سے راستے میں مختلف نوعیت کے حالات سے گذرناپڑتاہے۔دشوارگذارمرحلے بھی آتے ہیں اورآسان ترین لمحات بھی۔دشوارگذارمرحلوں سے کس طرح گذرناہوتاہے وہ سب حالات سکھادیتے ہیں بشرطیکہ ا±س نوجوان کے ارادے میں دم ہوناچاہیئے۔ بقول شاعر
مشکلوں سے جوڈرتے ہیں وہ ذلیل وخوارہوتے ہیں 
بدل دے جووقت کی رفتارا±سے خوددارکہتے ہیں
یوں توڈوبتی ہیں ہزاروں کشتیاں ملاحوں کے بھروسے 
چپوجوخودچلاتے ہیں وہی اکثرپارہوتے ہیں۔

میرامقصدمضمون کے ذریعے نوجوانوں کوچنداہم نوجوانوں کے مصمم ارادوں سے آشنائی کراناہے جنھوں نے زندگی میں مشکل ترین حالات کاسامناکرکے اپنی صلاحیتوں کالوہامنواکراپناایک منفردمقام بنایا۔

ڈاکٹرشاہ فیصل:ریاست جموں وکشمیرسے تعلق رکھنے والے اس نوجوان کانام کسی تعارف کامحتاج نہیں۔وادی کشمیرکے ایک سرکاری سکول سے تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان نے بارہویں جماعت کے بعدایم بی بی ایس کےلئے کوالیفائی کیااورتین چاربرس ڈاکٹری کی تربیت حاصل کی لیکن انہیں سکون نہیں ملا۔پھروالدہ کی اجازت سے آئی اے ایس کی تیاری کرناشروع کردی چونکہ والدصاحب کی وفات ہوچکی تھی۔ شاعرمشرق علامہ اقبال اورفیض احمدفیض کی شاعری سے حددرجہ متاثرشاہ فیصل نے عوام کی خدمت کےلئے آئی اے ایس (انڈین ایڈمنسٹریٹیوسروسز)کی تیاری کےلئے ایک سال کاتعین کیااورکسی بھی کوچنگ سنٹرسے تربیت نہیں لی۔ خودہی کتابوں کامطالعہ کیااوربلاآخرسال2010 میں ہندوستان بھرمیں اہم امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے ریاست جموں وکشمیرکانام فخرسے بلندکیااوریہ ثابت کیاکہ اگرریاست جموں وکشمیرکے چاہیں توملکی اوربین الاقوامی سطح پراپنانام پیداکرسکتے ہیں۔ 

ڈاکٹرشاہ فیصل ایک لیکچرکے دوران کہتے ہیں کہ 
”میں نے جب دوستوں وغیر ہ سے کہاکہ میں آئی اے ایس کروں گاتوانہوں نے کہاکہ کشمیری آئی اے ایس نہیں کرسکتے ، میں نے ا±نہیں چیلنج کیاکہ اگلے برس پہلے پچاس میں میرانام ہوگا“ 

ڈاکٹرشاہ فیصل طلبائ سے کہتے ہیں کہ 
”اگرآپ نے کے اے ایس یاآئی اے ایس بنناہے تواقبال کی شاعری پڑھو، اورانڈیاکوجانو۔1500روپے کی اخباریں ایک سال میں پڑھو، ایک نیشنل اخبارروزانہ پڑھواورملک کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانکاری حاصل کرلو، اورہمت اورحوصلہ رکھواوراپنے اندریقین کوپالوکہ میں کامیاب ہوجا?ں گا“

شاہ فیصل کی کامیابی سے اب بے شمارجموں وکشمیرکے طلبائ KAS،اورIAS مسابقتی امتحان میں اپنی صلاحیتوں کالوہامنوارہے ہیں۔ جن میں جتندرگوسوامی ،بھدرواہ۔سحریش اصغر، اعجازاحمد، ڈاکٹرشاہداقبال، اعجازقیصر، مدثرحسین، محمداشرف، وغیرہ قابل ذکرہیں۔

محمدشاہ نوازچودھری۔حال ہی میں آل انڈیایوتھ کانگریس کی طرف سے ریاست جموں وکشمیرمیں پردیش یوتھ کانگریس کے انتخابات کرائے گئے جس میں ریاست کے نوجوانوں کی اکثریت نے شاہ نوازچودھری کوپردیش یوتھ کانگریس کا ریاستی صدرمنتخب کیا۔کانگریس جماعت کے اس تنظیمی انتخاب کااصل مقصدقابلیت کی بنائ پرنوجوانوں کی تقرری کرناتھاتاکہ باصلاحیت نوجوان سیاسی میدان میں آئیں اورکانگریس جماعت کے پلیٹ فارم سے عوامی خدمت کابیڑہ ا±ٹھائیں۔ محمدشاہ نوازچودھری پردیش یوتھ کانگریس کے ریاستی صدرمنتخب ہونے سے قبل آل انڈیایوتھ کانگریس کے قومی سیکرٹری کے عہدے پراپنی ذمہ دارایاں سرانجام دے چکے تھے جس کے باعث آل انڈیایوتھ کانگریس کے قائد راہل گاندھی کوشاہ نوازکی صلاحیتوں سے آشناتھے۔راہل گاندھی جانتے تھے کہ شاہنوازکوجوبھی ذمہ داری سونپی جائے گی وہ جانفشانی سے ا±س کوپوراکرنے کی کوشش کریں گے لہذاا±نہوں نے شاہ نوازچودھری کوریاست جموں وکشمیرکے نوجوانوں کوبیدارکرنے کی ذمہ داری سونپی اورگا?ں گا?ں جاکرنوجوانوں کی ممبرشپ کرنے کاحکم دیاتاکہ باصلاحیت نوجوانوں کی تلاش کی جاسکے۔اپنی ذمہ داریوں کوبلاجھجھک شاہنوازنے قبول کیااورریاست کے مختلف دوردرازعلاقہ جات میںجاکر نوجوانوں میں بیداری لانے کےلئے کافی تگ ودوکی جس کاثمرآج ہم سب کے سامنے ہے۔نوجوانوں کی اکثریت نے شاہنوازچودھری کی نوجوانوںکے مسائل تئیں فکراورعوام کی خدمت کے جذبے کوکافی سراہااورپھرممبرشپ مہم کے دوران بڑھ چڑھ کرشاہنوازکی حمایت کی۔آج جبکہ شاہ نوازچودھری پردیش یوتھ کانگریس ریاست جموں وکشمیرکے ریاستی صدرمنتخب ہوچکے ہیں۔شاہنوازکی اس کامیابی سے پوری ریاست کے نوجوان نہ صرف خوش ہیں بلکہ انہیں بھی اپنی پروازآسمانوں میں دکھائی دینے لگی ہے۔چندسال قبل کس کویقین تھاکہ ضلع پونچھ کے علاقہ سرنکوٹ کایہ نوجوان بہت جلدترقی کی بلندیوں کوچھولے گا۔کسی کویقین ہویانہ ہوشاہ نوازکویقین تھاکہ وہ ایک دِن ضروربلندیوں کوچھوئے گا۔شاہنوازچودھری کی کامیابی ا±ن کی محنت، مشقت، دیانتداری کانتیجہ ہے۔یوتھ کانگریس کے انتخابات اورشاہنوازچودھری کی کامیابی سے ریاست کے نوجوانوں میں ایک خوشی کی لہرپائی جاتی ہے اورا±ن میں بھی کامیابی کے حصول کی جدوجہدکاجذبہ پیداہوگیاہے جوکہ ریاست جموں وکشمیرکے مستقبل کےلئے نیک شگون ہے۔شاہنوازچودھری جہاں بھی جارہے ہیں ا±ن کاوالہانہ استقبال کیاجارہاہے اورنوجوان اپنے قائدکی کامیابی سے سرشارنظرآرہے ہیں۔شاہنوازچودھری نے جموں یونیورسٹی سے ایل۔ ایل بی یعنی قانون کی ڈگری حاصل کی ہے۔ قانون کی تعلیم نوجوانوں کو کس قدرانصاف حاصل کرنے اورانصاف فراہم کرنے کادرس دیتی ہے ا±س کااندازہ شاہنوازچودھری کے جموں یونیورسٹی میں دوران تعلیم طلبائ کے حقوق کےلئے کی گئی جدوجہدسے ہوجاتاہے۔شاہنوازحق کی لڑائی لڑتاتھا جس پرا±س وقت کے وائس چانسلربھی ا±س کوداددیتے تھے۔ بقول صدرشعبہ ا±ردوجموں یونیورسٹی پروفیسرشہاب عنایت ملک۔

”شاہنوازجموں یونیورسٹی میں ایل ایل بی کی تعلیم حاصل کررہاتھاوہ میرے قریب ا±س وقت آیاجب پروفیسرامیتابھ مٹوجموں یونیورسٹی کے وائس چانسلرتھے اورمیں اسسٹنٹ ڈین سٹوڈنٹ ویلفیئرتھا۔Law اسکول سے شاہنوازCultural سیکرٹری بھی تھا۔اسے پڑھائی کے دوران ہی ادب اورآرٹ سے بھی دلچسپی تھی اس کے علاوہ طلبائ کی سیاست میں بھی مصروف رہتاتھا۔ ا±س کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ بڑوں سے مشورہ ضرورکرتاتھااورانہیں عزت دینابھی جانتاتھا۔یہی وجہ ہے کہ وہ جب طلبائ کے مسائل سے متعلق بات کرتاتھاتوبڑے دلائل کے ساتھ اپنی بات بھی منواتاتھا۔یہی وجہ ہے کہ پروفیسرامیتابھ مٹوبھی ہمیشہ اچھے کاموں کے لیے شاہنوازکوشاباشی دیتے تھے۔ شاہنوازیونیورسٹی میں ہمیشہ سچ کاساتھ دیتاتھا“۔

اللہ تعالیٰ سے د±عاہے کہ شاہ نوازچودھری کو غریب عوام کی خدمت کرنے کی توفیق عطافرمائے اورہمیشہ حق وسچ کی لڑائی لڑنے کاموقعہ فراہم کرے۔

علی اکبر ناطق: ہوسکتاہے کہ کچھ لوگ اس نام سے واقف ہوں یاکچھ لوگ اس شخص کوذاتی طورپربھی جانتے ہوں لیکن ہوسکتاہے کہ بیشتراس نوجوان پاکستانی نامورشاعرکی زندگی کے بنیادی حقائق سے آگاہی نہ رکھتے ہوں۔ علی اکبرناطق اوکاڑہ پاکستان کے رہنے والے ہیں اوران کی زندگی کاآغازایک مزدورکی حیثیت سے ہوا۔ مزدورکی زندگی میں علم وتعلیم کاعمل دخل کچھ زیادہ نہیں ہوتا اورنہ ہی فنون لطیفہ اورفائن آرٹس کے ساتھ دلچسپی اوروابستگی ہوتی ہے۔مزدوراکثر فکرمعاش، فکرروزگارکے باعث زندگی کی رنگینیوں ، زاویوںجنھیں گردشِ ایام کہتے ہیں سے لطف اندوزہونے سے محروم رہتے ہیں حالانکہ وہ گردشِ ایام سے سب سے زیادہ متاثرہوتے ہیں۔ علی اکبرناطق کے والدمزدوری کرتے تھے ، داداصاحب کوگینٹھیاہوگیاتھا، گھرکے مالی حالات ٹھیک نہیں تھے جس کے پیش نظرعلی اکبرناطق نے 15سال کی عمرمیں والدکے ساتھ مزدوری کرناشروع کردی حالانکہ ا±س کے والدناطق کوتعلیم دلواناچاہتے ہیں۔ علی اکبرناطق چونکہ گھرمیں بڑے بیٹے تھے ا±نہوں نے دیکھاکہ گھرکاگذارہ نہیں چل رہاہے پھراپنے والدمحترم کیساتھ مزدوری کرناشروع کردی۔میٹرک کے بعدتعلیم کاسلسلہ ٹوٹ گیالیکن کتابوں سے گہری دلچسپی رکھتے تھے اوربعدمیں پرائیویٹ طورپرپڑھتے رہے اورمحنت ،دیانتداری اورلگن سے آج پاکستان کے معروف شعرائ میں شمارہوتے ہیں۔گذشتہ برس سال 2011 کے دسمبرمیں جموں یونیورسٹی میں منعقدہ ”جشن فیض “بین الاقوامی سیمی نارمیں بھی علی اکبرناطق نے اپناکلام پیش کیاتھاجس کوجموں کے معززین وادبی حلقوںنے کافی سراہاتھا۔

اب پیش ہیں علی اکبرناطق کے ساتھ پاکستانی ٹیلی ویڑن پرایک انٹرویوکے چنداقتباسات
اینکرکے سوال کے جواب میں علی اکبرکہتے ہیں کہ 
”میں چھوٹاتھاتوآم توڑتے تھے اورچٹنی بناکراورکبھی مرچوں اورکبھی ویسے ہی نہ ملی اورکبھی سوکھی ہی کھالی ، والدکی محنت اورجفاکشی پرروناآتاہے ، بڑے مشکل دِن دیکھے ہی، مجھے اوائل عمری میں ہی مزدوری کرنی پڑی لیکن میں نے کتابوں کا مطالعہ جاری رکھا۔انہوں نے بتایاکہ مجھے بچپن سے ہی شاعری سے شغف ہوگیاتھااورمیں نے سب سے پہلی نظم مسجدکامیناربناتے ہوئے ، سیمنٹ کی بوری کے ٹکڑے کے ساتھ لگے کاغذکوپھاڑکرلکھی جس کاعنوان تھا”نام ونسب“جوکہ اس طرح تھی۔
نام ونسب 
اے میرانام ونسب پوچھنے والے سن لے 
میرے اجدادکی قبروں کے پرانے کتبے 
جن کی تحریرمہہ وسال کے فتنوں کی نقیب
جن کی بوسیدہ سلیںسیم زدہ شوخ زدہ
آسیب زمانے کے رہے جن کا نصیب 
پشت درپشت بلافصل وہ اجدادمیرے
اپنے آقا?ں کی منشاتھی مشیت ا±ن کی
اگروہ زندہ تھے زندوں میں شامل کب تھے 
مرنے پرفقط بوجھ تھی میت ا±ن کی 
جن کومکتب سے لگا?تھانہ مقتل کی خبر
جونہ ظالم تھے نہ ظالم کے مقابل آئے 
جن کی مسندپرنظرتھی نہ ہی زنداں ہی سفر
اے میرانام ونسبت پوچھنے والے سن 
ایسے بے دام غلاموں کی نشانی میں ہوں۔

دوران انٹرویوناطق بتاتے ہیں کہ 
”مزدوروں کیساتھ بڑابے رحمانہ سلوک ہوتاہے لیکن میں اورمیراوالدعلاقہ میں اپنے کام میںماہرتھے اورہم راج گیری یعنی میسن کاکام کرتے تھے۔ ناطق نے کہاکہ اگرمزدوراپنے کام میں ماہرہے تووہ دوسرے پرحاوی رہتاہے اوراگرمزدورمیں کوئی خامی ہے تووہ منہ لٹکالیتاہے “۔

ناطق کہتے ہیں کہ 
”میرے داداانڈیاسے آئے تھے اوریہاں پرمقامی لوگوں کے مقابلے میں انڈیاسے آنے والے کتابوں کی زیادہ توجہ دیتے تھے اورمیرے والدصاحب بھی کتابیں پڑھاکرتے تھے۔ علی اکبرناطق 
میرے دادا۔پڑھنے والاآدمی تھا۔و ہ بھی علاقہ میں۔جتنی کتابیں علاقہ میںپڑھی ہیں کسی نے نہیں پڑھیں تھیں۔انہوں نے کہاکہ ہمارے گھرکے سامنے ایک لائبریری تھی جس کاسنگ بنیادمحمدحسین آزاداورمولوی کریم الدین نے رکھاتھا“۔

ٹی وی اینکرعلی اکبرناطق کی جدوجہدسے متاثرہوکرکہتے ہیں کہ اگرمسجدکے گنبدبنانے والا، کیچڑاورگارے کاکام کرنے والاشخص اعلیٰ درجہ کاشاعربن سکتاہے تویقیناہرکوئی پڑھ سکتاہے۔

علی اکبرناطق کہتے یں کہ 
”اگرہم کتابوں کامطالعہ کرتے ہیں توا±س سے ہمارے اندربردباری پیداہوجاتی ہے اورمیں آٹھ گھنٹے کام کرتاتھاتوا±س کے بعدسوتانہیں تھابلکہ کتابیں پڑھتارہتاتھا۔میں دوپہرکوجب 12 سے 1بجے کھانے کاوقت ہوتاتھاتب بھی کتاب پڑھتاتھااورکئی مرتبہ کھاناکھاتے کھاتے لقمہ بھول جاتے تھااوراس پرمجھے گا?ں والے چھیڑاکرتے ہیں اورکہتے تھے کہ یہ پاگل”مبین “ ہے اوردماغی طورکھسک گیاہے“۔

وہ مزیدکہتے ہیں کہ 
”میں نے آج تک کام کواپنے سرپرسوارنہیں کیاکیونکہ میں جانتاتھاکہ میری جان اس کام سے ایک دن چھوٹنی ہے جس کے لیے میں نے پرائیویٹ طورپرپڑھناشروع کیا، میری دسویں کے بعدکے امتحانات میں چارچارسال کاوقفہ ہے لیکن میں نے لگاتارکوشش کی کیونکہ مجھے سب کچھ آتاتھالیکن ایک کلاس سے دوسری کلاس میں جانے کےلئے بحرطورڈگری کی ضرورت تھی “۔

علی اکبرناطق کہتے ہیں
”میراخواب تھاکہ میں لاہورکالج اوریونیورسٹی میں داخلہ لوں جوکہ میں نے حال ہی میں لاہوریونیورسٹی میں داخلہ لے کرپوراکیاہے “

علی اکبرناطق کے کلام کی پختگی پرایک نظرڈالیے !
غزل
ربطہ اتنانہ بڑھا
دِل کے گنہگاروں سے 
ہم سلامت نہیںلوٹے کبھی درباروں سے
بک گئی دولتِ یعقوب یہاں پرارضاں
اتناآسان نہ گذرمصرکے بازاروں سے 
صبح ا±میدنے چاہت سے پکارالیکن 
فاصلے طے نہ ہوئے ہجرکے بیماروں سے 
شب کے آوارہ مزاجوں کی خبرہے کس کو
راستہ پوچھ کے چلتے رہے دیواروں سے 
منہ چھپائے لئے پھرتاہے عدووآب اپنا
بھرگیاتیرامقام میرے عزاداروں سے 

علی اکبرناطق کہتے ہیں
”میں نے آج تک کسی کی بحراورزمین میں شعرنہیں لکھااورنہ میں نے آج تک کسی شاعرکی نظرشعرکیاکہ فیض کی نظر، منیرنیازی کی نظر۔ میں سوچتاہوں کہ اگرمیںکسی کی بحریازمین پرشعرلکھتاہوں یاا±س جیسالکھناچاہتاہوں یالکھتاہوں تومیری اپنی شخصیت کہاں گئی “

لطیف جذبوں کے امین لوگ اکثرزندگی کی اس تلخ جدوجہدسے کتراجاتے ہیں اورکمزورواقع ہوتے ہیں لیکن علی اکبرناطق نے ثابت کیاہے کہ اچھی گفتار، اچھے خیالات ، نرم احساسات رکھنے کایہ مطلب ہرگزنہیں کہ آدمی کے اندروہ سختی نہیںجوکہ حالات کامقابلہ کرنے کےلئے چاہیئے ہوتی ہے۔
(انٹرویوکی جھلکیاں انٹرنیٹ کی یوٹیوب ویب سائٹ سے ڈا?ن لوڈکی ہیں)

ابرارالحق: موسیقی کے اِس درخشندہ ستارے کاجنم 21 جولائی 1968ئ کونارووال (سیالکوٹ) مغربی پنجاب پاکستان میں ہوا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گجرات اورراولپنڈی سے حاصل کرنے کے بعدسرسیدکالج راولپنڈی سے گریجوکیشن کی اورقائداعظم یونیورسٹی اسلام آبادسے سوشل سائنسزمیں ماسٹرڈگری حاصل کی۔ابرارنے اپنے کیرئیرکاآغازاتھیسن کالج سے بطورمدرس کیامگرابرار گلوکاربنناچاہتے تھے لیکن اس کے گھروالے ابرارکوگلوکاری کی طرف جانے کےلئے اجازت نہیں دے رہے تھے لیکن آخرکارابرارنے شش وپنج سے نکلنے کافیصلہ کرتے ہوئے گلوکاری کاپیشہ اپنانے کاحتمی فیصلہ کیااوراس میدان میں کودپڑے۔

ابرارکواپنے پہلے گانے کی ریکارڈنگ کےلئے لگ بھگ آٹھ برسوں تک میوزک کمپنیوں کے پاس جاکرمنتیں کرنی پڑیں لیکن وہ ہارانہیں کیونکہ وہ اپنی صلاحیتوں سے آشناتھااورجانتاتھاکہ میں ایک دِن ضرورکامیاب ہوجا?ں گا۔اسی یقین کانتیجہ تھاکہ جب ابرارکی اس پہلی میوزک البم ”Billo De Ghar“لانچ ہوئی توراتوں رات ابرارکی قسمت بلندیوں پرپہنچ گئی۔اس البم کااندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ اس البم کی ایک کروڑساٹھ لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں۔ابرارالحق بنیادی طورپراپنی مادری زبان پنجابی میں گاتے ہیں تاہم کچھ گانے ا±ردومیں اورکچھ پنجابی اورانگریزی کی آمیزش بھی ہیں۔ ابرار الحق کی آوازوموسیقی میں جومٹھاس پائی جاتی ہے وہ س±ننے والوں کے دِلوں میں ا±ترتی ہی چلی جاتی ہے۔اب تک خدادادصلاحیتوں کامظاہرہ کرتے ہوئے ابرارالحق نے بھنگڑا،پاپ اورفوک یعنی موسیقی کے تینوں میدانوں میں اپنی صلاحیت کے جوہردکھائے ہیں۔

ابرارالحق نے ایک انٹرویوکے دوران جذبہ ح±ب الوطنی کااظہاراس طرح کیاہے کہ” میں اپنے ملک کے خلاف نہیں س±ن سکتا“۔انہوں نے کہاکہ ”مجھے صرف اگریہ خوشخبری دی جائے کہ پاکستان کامستقبل محفوظ ہے تومجھے اطمینان ہوجاتاہے “پاکستان بھرمیں ابرارالحق کونہ صرف ایک گلوکار، موسیقاراورگیت کارکے طورپرجاناجاتاہے بلکہ ایک فلاحی اورسیاسی شخصیت بھی تسلیم کیاجاتاہے۔

ابرارالحق کے اندرجوپاکستانی عوام کی مشکلات کودورکرنے اورقوم کود±نیاکی بہترین قوم بنانے کاجو جذبہ ہے وہ بہت کم لوگوں میں پایاجاتاہے۔ملک کے بگڑے ہو ئے حالات اورعوام کی حالت زارکومدنظررکھتے ہوئے ابرار نے پاکستان میں عوامی فلاح کے جذبے کوفروغ دینے اورعوام کی خدمت کرنے کےلئے ایک فلاحی ادارہ ”سہارافارلائف ٹرسٹ“ قائم کیاہے۔ فلاحی مشن کے تحت ہی نامورگلوکارنے نارووال میں صغٰری شفیع میڈیکل کمپلیکس بھی قائم کیاہے جہاں پرلوگوں کومفت علاج ومعالجہ کی سہولیت دی جارہی ہے۔ ابرارکے فلاحی جذبہ سے متاثرہوکرعوام بھی ”سہارافارلائف ٹرسٹ “ کوبڑھ چڑھ کرعطیات دیتے ہے۔ ”سہارافارلائف ٹرسٹ “ کے تحت ابرار نے پاکستانی عوام کی وہ خدمت کی ہے جوبڑے بڑے سیاستدان نہیں کرپائے ہیں۔

پاکستان میں گلوکاری اورسماجی فلاح وبہبودکے علاوہ ابرار ایک سیاسی لیڈرکی حیثیت سے بھی عوامی خدمت کافریضہ انجام دے رہے ہیں۔انہوں نے گذشتہ برس 25دسمبر2011ئ کوپاکستان کے نامورکرکٹروقدآور سیاسی شخصیت عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف پارٹی کادامن تھام کربطورسیاست دان پاکستانی عوام کی خدمت کابیڑہ ا±ٹھایا۔تحریک انصاف میں شمولیت سے قبل”یوتھ پارلیمنٹ “نامی غیرسرکاری تنظیم کے تحت وہ نوجوانوں کی قیادت کررہے تھے۔

ابرارالحق نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاکردہ صلاحیتیوں کامظاہرہ کرتے ہوئے مختلف تنظیموں کی طرف سے متعدد اعزازت بھی حاصل کئے ہیں۔ابرارالحق کوجن اعزازات سے حوصلہ افزائی ملی ا±ن میں سال 2002 میں بہترین لوک گلوکارایوارڈ، 2001 میں بہترین پاپ سنگرایوارڈ، فرٹوسن میوزک ویوورزایوارڈ، سٹی زن ایکس لینسی ایوارڈاورمسلسل دوسال تک پاکستان کاسب سے مشہورگلوکارایوارڈکااعزاز، 2005 میں تمغہ امتیاز، اسلامی کانفرنس کاپہلاہیومنٹیرین ایمبسڈرایوارڈوغیرہ قابل ذکرہیں۔

غورکرنے کامقام ہے کہ ابرارالحق بیک وقت ایک، گلوکار، موسیقاراورگیت کار، سیاستدان ، سماجی فلاحی ادارے کے منتظم کی ذمہ داریاں سرانجام دے رہاہے تواگرہم(نوجوان) محنت کریں توہم کامیابیوں کی بلندیوں کوکیوںنہیں چھوسکتے ہیں۔راقم نے مضمون کے ابتدائی حصہ میں تحریرکیاتھاکہ نوجوانوں کی پیشہ وارانہ تعلیم ا±سی میدان میں ہونی چاہیئے جس میں طالب علم کارجحان ہو۔ابرارالحق کارجحان گلوکاری کی طرف تھاجس کے باعث وہ مدرس ہوتے ہوئے بھی سنگیت کی طرف آنے کوبیتاب تھااورجب گلوکار ی میں شہرتِ دوام ملا تواپنے اندرخدمت خلق کے جذبہ کے تحت فلاحی تنظیمیں ، ہسپتال اورایک سیاستدان کے طورپربھی ملک کے لیے خدمات انجام دینے میں مصروف ہوگئے۔ 

کچھ اشعارجن سے نوجوان تحریک پاسکتے ہیں اوراپنامعیارِ زندگی بہتربناسکتے ہیں۔
تونے چاہاہی نہیں تیرے حالات بدل سکتے تھے 
تیری آنکھ کے آنسومیری آنکھ سے نکل سکتے ہیں 
تم توٹھہرے رہے جھیل کے پانی کی طرح 
دریابنتے تودورنکل سکتے تھے 
٭٭٭
مٹادے اپنی ہستی کوگرکچھ مرتبہ چاہیئے 
کہ دانہ خاک میں مِل کرگ±ل ِ گلزارہوتاہے 
٭٭٭
سوچ کوبدلوستارے بدل جائیں گے 
دِشاکوبدلوکنارے بدل جائیں گے 
لوگوں کوبدلنے کی ضرورت نہیں 
خودکوبدلولوگ سارے کے سارے بدل جائیں گے
٭٭٭
خودی کوکربلنداِتناکہ ہرتقدیرسے پہلے 
خدابندے سے پوچھے بتاتیری رضاکیاہے (علامہ اقبال)
٭٭٭
کبھی مہک کی طرح گلوں سے ا±ٹھتے ہیں 
کبھی دھوئیں کی طرح پربتوں سے ا±ٹھتے ہیں
ارے قنچیاں کیاہمیں خاک روکیں گی ا±ڑنے سے 
ہم توپروں سے نہیں اپنے حوصلوں سے ا±ڑتے ہیں 
٭٭٭
ہوتے ہیں جن میں حوصلے ملتے ہیں ا±ن کوراستے !
کامیابی نہیں ہے میرے دوستوبزدلوں کے واسطے !
٭٭٭
کامیابی ا±ن ہی کوملتی ہے جن کے سپنوں میں جان ہوتی ہے 
پنکھوں سے کچھ نہیں ہوتا، حوصلوں سے ا±ڑان ہوتی ہے
٭٭٭
جنون ہوجس کے سرپہ سوارا±س کے لیے فاصلے کیاہیں ساقی
ہراک بڑھتے قدم کے ساتھ یہ تمنانکلے بس اِک اگلاقدم اورہے باقی 
٭٭٭
وقت خودجواب ہے اس پرسوال نہیں ہوتا
مٹی کی گودمیں دبے بناگلاب نہیں ہوتا
کامیاب ہونے کےلئے خودکوجلاناپڑتاہے 
یوں ہی م±ٹھیاں بندکرنے سے انقلاب نہیں ہوتا